عبدالرشید نے اس مجمعے میں کھڑے ہوکر بڑی جرأت کے ساتھ کہا کہ یہ ہندوبنیے، کراڑ جو میرے سامنے بیٹھے ہیں، اسلام قبول کرنے کی وجہ سے مجھے مارتے پیٹتے ہیں اور کئی قسم کی دھمکیاں دیتے ہیں۔میرا اب ان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔میں مسلمان ہوں اور میرا تعلق مسلمانوں ہی سے ہے۔ عبدالرشید کا یہ اعلان سن کر مسلمان بہت خوش ہوئے اورباآواز بلند کہا کہ ہم اللہ کا شکر اد ا کرتے ہیں کہ اس نے مولوی نور محمد شہید کی جگہ پُر کردی اور اس کے بدلے میں ہمیں عبدالرشید مل گیا جو اسلام کا جرأت مند مبلغ ہوگا۔اس وقت جھوک دادو کا ایک شخص محمد حسین بھی موجود تھا۔اس نے خوش ہوکر عبدالرشید کو پانچ روپے کا نوٹ بطور انعام دیا۔اوکاڑہ کے علاقے کے میاں عبدالحق ایم ایل اے بھی اس اجتماع میں شریک تھے(جو ایک گاؤں برج جیوے خاں کے رہنے والے تھے) وہ عبدالرشید کو اپنے ساتھ ساہیوال لے گئے۔اور اپنی کوٹھی میں ان کے قیام کا انتظام کیا۔اس سے چند روز بعد رمضان کامہینا آگیا۔عبدالرشید کی اسلامی زندگی کا یہ پہلا رمضان تھا۔انھوں نے میاں عبدالحق ایم ایل اے کے کوٹھی میں روزے رکھنے کا آغاز کیا۔وہاں سے تقریباً ایک میل کے فاصلے پر اس شہر کے مشہور اہلحدیث عالم مولانا عبدالجلیل کی مسجد تھی۔عبدالرشید نہایت ذوق وشوق سے ہر روز اس مسجد میں نماز تراویح پڑھنے جاتے تھے۔ مولوی نور محمد کے قتل کا مقدمہ تقریباً دوسال چلتا رہا۔لیکن کچھ نہ بنا۔کہا جاتا ہے کہ اس قتل میں ایک مسلمان بھی شامل تھا جسے بعد میں کسی وجہ سے کسی نے قتل کردیا تھا۔سنا ہے کہ جب وہ قتل ہورہا تھا تو اس نے کہا تھا کہ میں نے ناحق مولانا نورمحمد کو قتل کیا تھا، اللہ تعالیٰ نے مجھ سے دنیا ہی میں اس کا انتقام لے لیا۔ رمضان کا مہینا گزرا تو یہ سوال پیدا ہوا کہ عبدالرشید کو دینی تعلیم کہاں دلائی جائے؟میاں عبدالحق کا خیال تھا کہ اس لڑکے کو مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے پاس پٹھان کوٹ بھیج دیا جائے۔لیکن ان کے والد مکرم میاں نور محمد نے اس سے اختلاف کیا۔انھوں نے فرمایا کہ اسے میاں محمد باقر کے پاس جھوک دادو بھیجا جائے۔میاں صاحب متقی بزرگ ہیں اور وہاں ان کا دینی مدرسہ بھی ہے۔یہ لڑکا وہاں تعلیم بھی حاصل کرے گا۔ اورمیاں صاحب کی صحبت سے اس کے دل میں تقوے کے آثار بھی پرورش پائیں گے۔چنانچہ میاں نورحمد کی رائے پر عمل کیاگیا اور میاں عبدالحق نے اپنے ایک ملازم کے ساتھ عبدالرشید کو جھوک دادو بھیج دیا جو منڈی تاندلیاں والا کے قریب(ضلع فیصل آباد) میں ایک گاؤں ہے۔دوچار گھرانوں کے علاوہ اس گاؤں کے سب لوگ طور برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔اس نواح میں طور برادری کے چار گاؤں ہیں۔ایک یہی جھوک دادو، دوسرا موضع کٹو، تیسرا لکڑ والا اور چوتھا گاؤں ہے عینووالا۔ان چاروں مواضع میں اہلحدیث مسلک کے لوگ آباد ہیں اور یہ |