صاحب کی خدمت کرتے ہیں۔ کرشن لال کی سوتیلی بہن مالا دیوی شادی شدہ اور بچوں والی تھی، اس کی وفات کے بعد اس کے ساتھ بھی وہی ہوا جو اس کے باپ کے ساتھ ہواتھا۔ بلکہ اس میں ایک اضافہ یہ کیا گیا کہ اس کی آنکھوں میں نیل ڈالا گیا، پاؤں کے تلوؤں میں لوہے کی میخیں گاڑی گئیں اور زیورات پہنا کر اُسے نذر آتش کیا گیا۔ سنا ہے کہ ہندوؤں کا یہ عقیدہ ہے کہ بچوں والی عورت مرنے کے بعد جون بدل کر یعنی شکل اور ہئیت تبدیل کر کے کسی دوسرے روپ میں دوبارہ اپنے گھر آجاتی ہے اور گھر والوں کو پریشان کرتی ہے۔ ممکن ہے مالا دیوی کی آنکھوں میں اس لیے نیل ڈالا گیا ہو کہ وہ اندھی ہو جائے اور اس دنیا کا پرانا گھر جسے وہ چھوڑ کر گئی ہے، اسے دکھائی نہ دے۔تلوؤں میں میخیں اس لیے گاڑی گئی ہوں کہ وہ پاؤں سے چل نہ سکے اور زیورات اس لیے پہنائے گئے ہوں کہ عورتوں کو زیور سے پیار ہوتا ہے، مرنے کے بعد وہ اسے پہن کر خوش رہے اور ہماری طرف اس کا دھیان نہ جائے۔ ہندو مذہب عجیب قسم کے توہمات کا گورکھ دھندا ہے اور اس کی مختلف رسوم مختلف اسباب کی پیداوار ہیں، جن کو سمجھنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ ان کی باتیں وہی جانیں۔ بات کرشن لال کی ہو رہی تھی۔ وہ مال دار گھرانے کا لڑکا تھا۔اس کے آباؤ اجداد نے اپنے خرچ سے گاؤں میں ایک مندر یعنی بت خانہ بنایا تھا، جس میں دیوی دیوتا ؤں کی مورتیاں رکھی گئی تھیں، جن کی وہ پوجا کرتے تھے۔ مندر کی دیواروں پر متعدد تصویریں آویزاں کی گئی تھیں۔ ایک تصویر آدم اور حواکی تھی۔آدم کو وہ شیو جی مہاراج اور اماں حوا کو پارپتی جی کہتے ہیں۔ یہاں یہ یاد رہے کہ اپنے خرچ سے تعمیر کردہ مندر کے علاوہ اس خاندان نے سکھوں کے گوردوارے کی تعمیر کے لیےبھی مالی امداد فراہم کی تھی اور اس گوردوارےمیں سکھوں کی مذہبی کتاب گرنتھ صاحب کو نہایت احترام سے اونچی جگہ پر رکھا گیا تھا۔ گاؤں میں دھرم شالہ بھی ان کی امداد سے تعمیر کیا گیا تھا، جس میں بہت سے بت رکھے گئے تھے۔ ہندوؤں کے کئی فرقے ہیں۔ ایک فرقے کا نام سناتن دھرم ہے۔ اس فرقے سے تعلق رکھنے والے مورتی پوجتے ہیں، یعنی بت پرست ہیں خود ہی مورتی بناتے ہیں، جسے وہ اپنا خدا مانتے ہیں، پھر اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے بت کی پوجا کرتے ہیں۔ کرشن لال کا خاندان سناتن دھرمی تھا اور یہ لوگ مٹی کی بنائی ہوئی مورتی کی پوجا کرتے تھے، اس کے سامنے ہاتھ جوڑ کر بیٹھتے اور اسے سجدہ کرتے تھے۔خود کرشن لال بچپن میں اپنے مذہب کے مطابق مورتی پوجتا، اس کے سامنے شبد اور بھجن پڑھتا اور آرتی کرتا تھا۔ اس کا طریقہ کچھ اس قسم کا تھا کہ دائیں ہاتھ میں کرشن دھوپ رکھ کر |