پیدا ہوئے کہ ان کا وہاں رہنا اور خدمت تدریس انجام دینا ممکن نہ رہا۔ اس کا علم حافظ محمد شریف سیالکوٹی مرحوم کو ہوا تو انھوں نے ان کو سیالکوٹ آنے کی دعوت دی اور یہ سیالکوٹ تشریف لے گئے۔یہ 1962ء کی بات ہے۔حافظ محمد شریف صاحب نے سیالکوٹ کے محلّہ باغ ڈپٹی میں دارالحدیث کے نام سے ایک مدرسہ جاری کیا تھا۔مولانا محمد علی جانباز اس مدرسے میں مصروف تدریس ہوگئے۔یہ سلسلہ دوسال جاری رہا۔اس کے بعد حالات ایسےبدلے کہ ان کا وہاں رہنامشکل ہوگیا۔ 1964ء میں سیالکوٹ کے ایک نیک دل کاروباری شخص حاجی خدا بخش مرحوم نے مولانا محمد علی جانباز سے رابطہ پیداکیا۔حاجی صاحب کی رہائش حضرت مولانا محمد ابراہیم میر کی مسجد کے قریب تھی۔ حاجی صاحب نے اور پروفیسر ساجد میر اور مولانا محمد ابراہیم میر کی مسجد کے خطیب مولانا محمد ابراہیم ریاستی نے مولانا محمد علی جانباز سے کہا کہ وہ اس مسجد میں مدرسہ جاری کرنا چاہتے ہیں۔آپ اس میں مدرس کی حیثیت سے آجائیے۔چنانچہ ان کے کہنے پر مولانا محمد علی جانباز نے اس مدرسے میں تدریس کی ذمہ داری سنبھال لی۔1965ء میں اس مدرسے کے لیے ایک اور مدرس مولانا عطاء الرحمٰن اشرف کی خدمات بھی حاصل کرلی گئیں۔1968ء میں اس مدرسے میں اختتام بخاری شریف کی تقریب ہوئی۔جس میں حضرت حافظ محمد گوندلوی تشریف لائے۔یہ مدرسہ حاجی خدابخش اپنے خرچ پر چلا رہے تھے۔1970ء میں حاجی صاحب مرحوم نے اسے بند کردیا۔یہ مدرسہ چھ سال جاری رہا۔ اس وقت مولانا محمد علی جانباز محلّہ لاہوری شاہ ناصر روڈ کی مسجد اہلحدیث میں خطیب تھے۔انھوں نے مدرسے کے لیے مسجد کے نمازیوں سے مشورہ کیا تو وہ اس پر آمادہ ہوگئے کہ مدرسہ اس مسجد میں منتقل کردیاجائے۔چنانچہ یہ مدرسہ ناصر روڈ کی مسجد میں جاری کردیا گیا۔مسجد کے متولی شیخ حاجی محمد اکرم تھے۔ان کی والدہ نہایت صالحہ خاتون تھیں۔نیک بخت خاتون نے اس مدرسے کے ساتھ بہت تعاون کیا۔وہ اپنے خاندان کے لوگوں سے رقم اکٹھی کرکے مدرسے کی مدد کرتی رہیں۔اس اثناء میں حضرت مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی کی مسجد کے خطیب مولانا محمد ابراہیم ریاستی مرحوم نے بھی مدرسے کے سلسلے میں مولانا محمد علی جانباز کی بے حد مدد کی۔انھوں نےشہر کے لوگوں سے ان کا تعارف کرایا اور اپنے ہر جاننے والے سے مدرسے کے لیے تعاون کی اپیل کی اور اللہ کے فضل سے مدرسہ بخیر وخوبی چلتا رہا۔ اسی اثناء (1979) میں مدرسے کے لیے دس مرلے کا ایک پلاٹ خریدا گیا اور اصحاب ثروت کے تعاون سے وہاں ضرورت کے مطابق کمرے بھی تعمیر ہوگئے۔ چنانچہ 1980ء میں مدرسہ مسجد سے اس نئی عمارت میں منتقل کردیاگیا۔بعدازاں مدرسے میں مسجد |