Maktaba Wahhabi

456 - 665
کا زیادہ ترقیام دارالعلوم غواڑی میں رہتا تھا۔ جامعہ تعلیمات اسلامیہ میں وہ طلباء کو عربی ادب کی کتابیں پڑھاتے تھے۔یہاں ان کا قیام پانچ سال رہا اور اس طویل مدت میں متعدد علماء وطلباء نے ان کے سامنے زانوئے شاگردی طے کیے۔لیکن کس نے کیا کچھ پڑھا، اس کا علم نہیں ہوسکا۔بس یہی سننے میں آیا ہے کہ بہت سے لوگوں نے بہت کچھ پڑھا۔وہ”بہت لوگ“ کون ہیں اور کتنی تعداد میں ہیں؟اور ”بہت کچھ“ کیا ہے؟اس کا کوئی اطمینان بخش جواب کہیں سے نہیں ملتا۔ 6۔۔۔1979ء؁ میں وہ جامعہ تعلیمات اسلامی سے اپنے آبائی وطن بلتستان تشریف لے گئے اور دارالعلوم غواڑی میں ڈیرے ڈال دیے۔یہاں آتے ہی انھوں نے تدریس کا آغاز کردیا اور یہی ان کا اصل مشغلہ تھا۔اب وہ تھے، ان کا کتب خانہ تھا، دارالعلوم تھا اور سلسلۂ تدریس تھا۔یہ ان کی زندگی کی آخری قیام گاہ اور آخری درسگاہ تھی، جس میں وہ مشغول تدریس ہوئے۔اس دارالعلوم میں وہ 1979ء؁ سے 1983ء؁ تک تفسیر قرآن، عربی ادب اور علم نحو کی کتابیں پڑھاتے رہے۔نائب شیخ الحدیث کا منصب بھی ان کے سپرد تھا۔اس وقت مفتی عبدالقادر وہاں شیخ الحدیث تھے۔1983ء؁ میں مفتی صاحب نے وفات پائی تو مولانا عبدالرشید ندوی کو شیخ الحدیث کو مسند پر فائز کیا گیا۔اللہ تعالیٰ نے ان کو بہت سی خوبیوں سےنوازا تھا۔وہ تفسیر، حدیث، فقہ، صرف ونحو، منطق وفلسفہ، ادبیات وغیرہ علوم متداولہ میں مہارت رکھتے تھے۔انھوں نے پینتالیس برس تدریس کی۔اکیس برس صرف دارالعلوم غواڑی میں پڑھاتے رہے۔وہ قرآن وحدیث کے مدرس تھے اور کامیاب مدرس تھے۔لیکن نہایت افسوس ہے ان کے شاگردوں کے متعلق معلومات فراہم نہ ہوسکیں۔ حلم وتواضع، انکسار وعجز، عمل واخلاق اوررہن سہن میں سلف صالحین کا نمونہ تھے۔سادہ زندگی، سادہ معاشرت، طلباء کے خیر خواہ اورلوگوں سے میل جول ان کا شیوہ تھا۔وقت کا زیادہ حصہ مطالعہ ٔ کتب میں گزرتا تھا۔اہل علم کا بدرجہ غایت احترام کرتے تھے۔اپنے اساتذہ کا نہایت اچھے الفاظ میں ذکر کرتے۔ان کی تکریم ان کے نزدیک فرائض میں شامل تھی۔ مولانا ابوالکلام آزاد، مولاناثناء اللہ امرتسری، مولانا سیدمحمد داؤد غزنوی، مولانا محمد اسماعیل سلفی اور مولانامحمد حنیف ندوی سے بہت متاثر تھے اور ان حضرات سے مختلف اوقات میں کئی کئی دفعہ ملاقات کرچکے تھے۔ جن حضرات سے ان کے خاص مراسم وروابط رہےاور جن سے ان کی خط وکتابت رہی، ان کے ناموں کی جومطبوعہ فہرست دارالعلوم غواڑی کے مجلّہ(التراث)(بابت جولائی تادسمبر 2001ء) کی وساطت سے مجھے ملی ہے، اس میں اس فقیر کا نام بھی درج ہے۔دیگرحضرات کے اسمائے گرامی یہ
Flag Counter