Maktaba Wahhabi

455 - 665
استاذ کی حیثیت سے فریضہ ٔ تدریس سرانجام دیتے تھے۔یہ چار علوم ہیں، لیکن یہاں بھی یہ واضح نہیں ہوسکا کہ ان علوم کی کون کون سی کتابیں وہ مدرسہ ریاض العلوم میں پڑھاتے تھے اور پڑھنے والے کون لوگ تھے۔صرف مولانا ابو الاشبال شاغف کا پتا چلتاہے کہ اس مدرسے میں وہ ان سے تعلیم حاصل کرتے تھے اور ان کا پڑھانے کا طریقہ بہت اچھا تھا۔وہ نہایت محنت سے پڑھاتے تھے اور طلباء ان کے اسلوبِ درس سے بہت مطمئن تھے۔ان کی تدریس کے بارے میں مولانا ابوالاشبال ان کے بے حد مداح ہیں۔ مولانا ابوالاشبال برصغیر کے مشہورعالم ومصنف ہیں اور مکہ مکرمہ میں اقامت گزیں ہیں۔اس کتاب(دبستان حدیث) میں ان کے حالات بیان کیے گئے ہیں۔ 4۔۔۔1961ء؁ میں مولانا عبدالرشید لداخی ندوی نے ہندوستان سے تعلق توڑ کر زندگی پاکستان آنے کا منصوبہ بنایا۔وہ دہلی سے کراچی آئے، پھر واپس دہلی چلے گئے۔پھر آئے، پھر چلے گئے۔اس طرح انھوں نے دہلی اور کراچی کے کئی چکر لگائے۔بالآخر انھیں پاکستان کی شہریت مل گئی اور وہ 1962ء؁ میں مستقل طور پر پاکستان تشریف لے آئے اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔اس وقت کراچی میں شیخ عبدالوہاب دہلوی نے اپنے اہتمام میں مدرسہ رحمانیہ جاری کیا تھا اور یہ وہی مدرسہ رحمانیہ تھا جو تقسیم ملک سے قبل دہلی میں جاری تھا۔اس وقت مولانا محمد یونس دہلوی بھی کراچی سکونت پذیر تھے۔انھوں نے اپنے پرانے شاگرد مولانا عبدالرشید لداخی ندوی کو مدرسہ رحمانیہ میں خدمت تدریس انجام دینے کا مشورہ دیا اور سعادت مند شاگرد نے استاد کے فرمان کے مطابق اپنی خدمات کراچی کے مدرسہ رحمانیہ کے سپرد کردیں۔ان دنوں میں کراچی کے اس مدرسے میں بلتستانی طلباء بھی خاصی تعداد میں تعلیم حاصل کرتے تھے۔مولانا عبدالرشید یوں تو سب طلباء کا خیال رکھتے تھے، لیکن وطنی تعلق کی بنا پر بلتستانی طلباء کا وہ خاص طور سے زیادہ خیال رکھتے تھے۔ان کی مالی مدد بھی کرتے تھے۔طلباء کی ہفتہ وار تقریروں کے لیے انھوں نے”انجمن اصلاح البیان“ کے نام سے ایک تنظیم بھی قائم کی تھی تاکہ یہ اچھے مبلغ اور مقرر بنیں اور بہتر طریق سے اللہ کے دین کی خدمت کرسکیں۔یہ معلوم نہیں کہ مولانا عبدالرشید لداخی کراچی کے مدرسہ رحمانیہ میں کتنا عرصہ خدمت تدریس میں مصروف رہے اور وہاں انھوں نے کن طلباء کو پرھایا اور کون کون سی کتابیں پڑھائیں۔ 5۔کراچی سے حکیم عبدالرحیم اشرف انھیں فیصل آباد لے گئے اور انھوں نے حکیم صاحب کے قائم کردہ تعلیمی ادارے”جامعہ تعلیمات اسلامیہ“ میں سلسلۂ تدریس کا آغاز کردیا۔1975ء ؁میں انھوں نے شادی کی، جبکہ وہ پچاس برس کی عمر کو پہنچ گئے تھے۔اہلیہ کو فیصل آباد ہی لے آئے تھے۔ہرسال تعطیلات کے زمانے میں وہ اپنے وطن بلتستان تشریف لے جاتے تھے اور اس وقت ان
Flag Counter