کے ساتھ درس دیتے اور حق بات یہ ہے کہ فقہ، تفسیر، حدیث اورفلسفہ کے آپ عالم متبحر تھے۔پڑھانے میں جب تقریر کرتے تو ایک بحر مواج معلوم ہوتے تھے۔“ مولاناابوعبدالرحمان محمد عبداللہ ہزاروی جیلانوی لکھتے ہیں: ”میں 1282ھ میں تحصیل علم کے لیے دہلی گیا۔مولانا محمد قاسم ناتونوی، مولانا رشیداحمد گنگوہی، مولانا احمد علی سہارن پوری، نواب قطب الدین خاں صاحب دہلی، مفتی صدر الدین خاں صدر الصدور دہلی، مولانا سعادت علی سہارن پوری، مولانا عبدالغنی مجددی وغیرہم بڑے بڑے کاملین سے ملا اور بہت دنوں تک ان کے دروس کا مقابلہ اور موازنہ بہ نظر غائر میاں صاحب کے درس سے کرتا رہا۔آخری فیصلہ میرے دل نے یہی کیا کہ میاں صاحب کے درس میں بالکل ہی نرالا پن ہے۔“[1] عام لوگوں کے لیے میاں صاحب صبح کے وقت قرآن مجید کا درس دیاکرتے تھے۔درس کا سلسلہ روزانہ چلتا تھا۔ایک رکوع قرآن مجید کا تلاوت فرماتے اور پھر اس کا ترجمہ کرتے۔انداز بیان نہایت سادہ ہوتا۔میاں صاحب کے سوانح نگار کا بیان ہے کہ اس درس کا لطف وہی لوگ جانتے ہیں جو اس میں شریک رہے ہیں۔اس طرح ایک قرآن سال میں ختم ہوجاتا۔ قرآن میں جہاں اللہ کی توحید کا مضمون آتا، اسے سلجھا کر فرماتے:”مگر تم ولی والے یا پیر یا پیر ہی کہتے رہے۔وَمَا قَدَرُوا اللّٰه حَقَّ قَدْرِهِ چلو، صاحب چلو۔۔۔“یہ ان کا روزانہ وعظ ہوتاتھا۔ وعظ سے مقصود محض ہدایت انام ہوتا، اس لیے حضرت نے وعظ کا وہ طریقہ اختیار فرمایا جو معنی خیز ہونے کےساتھ عام فہم بھی تھا۔ابتدا میں قرآن مجید کی کوئی چھوٹی سورہ یا آیت تلاوت فرماتے۔پھر اس کا ترجمہ کرتے اور جتنے مسائل پر وہ نص صریح مشتمل ہوتی، وہ مسائل اپنے انداز میں بیان کرتے اور حتی الامکان قرآن کی تفسیر يفسر بعضه بعضا قرآن ہی سے کرتے اور شواہد میں مسائل مذکورہ سے متعلقہ احادیث سناتے۔سامعین میں اگر علمائے کرام بھی موجودہوتے تو ان کے لیے مسائل الٰہیات وفلسفہ کے بعض نکات وغوامض بھی بیان فرمادیتے۔تقریر میں ایسی صفائی اور سادگی ہوتی کہ آنچہ از دل خیز ودرول ریزو کے محاورے کے مطابق ہر بات لوحِ قلب پر مرتسم ہوتی چلی جاتی۔ان کےوعظ کی اثر انگیزی کے سلسلے میں الحیات بعدالممات کے فاضل مصنف نے متعدد واقعات بیان کیے ہیں۔لیکن یہ ان کی تفصیل میں جانے کا محل نہیں، صرف اشارے پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ |