دوسرا کتب خانہ دہلی میں حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کا تھا، جس میں کتابیں جمع کرنے کی ابتدا حضرت شاہ عبدالرحیم صاحب سےہوئی تھی۔اس میں ان کے فرزند گرامی حضرت شاہ ولی اللہ صاحب نے بھی اضافہ کیا اورپھر ان کے لائق ترین صاحب زادے شاہ عبدالعزیز صاحب نے اس کو مزید منزل ارتقا کی طرف بڑھاپا۔ تیسرا کتب خانہ خودمیاں صاحب کا تھا جو بے شمارمطبوعہ اور غیر مطبوعہ کتابوں پر مشتمل تھا۔میاں صاحب ان تینوں کتب خانوں کی کتابوں کا مطالعہ فرماتے تھے۔افسوس ہے 1857ء کے ہنگامے میں یہ کتب خانے ضائع ہوگئے اور جو کتابیں کسی طرح بچ گئیں وہ لندن کی انڈیا آفس لائبریری میں منتقل ہوگئیں۔ دہلی کے ان کتب خانوں کے علاوہ بعض دیگر مقامات کے کتب خانوں سے بھی میاں صاحب کتابیں عاریتاً منگواتے اور مطالعہ کے بعد واپس فرمادیتے مثلاً کبھی لکھنو تشریف لے جاتے تو مولانا عبدالحئی فرنگی محل کے کتب خانےکی سیر ضرور کرتے۔اسی شہر میں شیعہ حضرات کے کتب خانوں میں سے مولانا حامد حسین لکھنوی کے کتب خانے کا چکر لگاتے اور وہ حضرات جناب میاں صاحب کی تشریف آوری پر بے حد مسرت کا اظہار کرتے۔ان کتب خانوں کی کسی کتاب کی ضرورت ہوتی تو ان کے مہتمم بڑی خوشی سے وہ کتاب میاں صاحب کی خدمت میں پیش کردیتے۔میاں صاحب اس کا مطالعہ کرتے یا اسے نقل کرکے کتاب واپس بھجوادیتے۔ طریق درس وتدریس اوراندازِ وعظ الحیات بعد الممات کے مصنف کے بقول میاں صاحب کے درس وتدریس کا بھی عجیب طریقہ تھا۔اقوال صحیحہ وضعیفہ کی جانچ پڑتال، سلجھی ہوئی تقریر، بیان کی صفائی، تفہیم کی قدرت، حافظے کی قوت، اشکال کی تشریح، وسعت نظر، ملکہ راسخہ، ہرمقام کے مالہ وماعلیہ سے وقوف۔۔۔یہ تھیں ان کے درس کی خصوصیات۔ ڈپٹی نذیراحمد نے نہایت مختصر مگر خوب صورت الفاظ میں میاں صاحب کے طریق درس کا تذکرہ کیا ہے لکھتے ہیں: ”آپ کا درس عام پسند اورحساد کے لیے موجب گزند تھا“ مولوی محمد عبداللہ بازید پوری فرماتے ہیں: ”میں مفتی صدر الدین خاں صدر الصدور دہلی سے کتب درسیہ پڑھتا تھا اور اکثر میاں صاحب کے درس کے وقت وہاں بھی جابیٹھتا تھا۔طلباء کا ہجوم رہتا اور آپ نہایت تحقیق |