کا شوق بھی تھا اور کلمہ حق بلند کرنے اور لوگوں کو احکام خدا وندی سے آشنا کرنے کا جذبہ بھی ان کے اندر پایا جاتا تھا۔ وہ عربی اور اُردو کے بہت اچھے خطیب، بہت اچھے مناظر اور بہت اچھے مدرس تھے۔علاوہ ازیں بہت اچھے منتظم بھی تھے۔ اپنے والد ذی قدر کی وفات کے بعد انھیں جامعہ علوم اثریہ کے مہتمم ناظم مقرر کیا گیا تھا۔ یہ بہت بڑی ذمہ داری کا کام تھا جو ان کے سپرد کیا گیا۔ انھوں نے نہایت محنت سے اس کی رفتار کو آگے بڑھایا اور کئی نئے شعبے قائم کیے۔پھر افادہ عام کے لیے رفاعی سلسلے کو بھی ترقی دینے کی سعی کی۔ مختلف مقامات میں مسجد یں تعمیر کرائیں۔ تصنیف و تالیف اورمقالہ نگاری کے میدان میں قلم کے جوہر دکھائے۔ رسالہ ”حرمین“جاری کیا۔جسے علمی، تحقیقی اور سیاسی مباحث کا مجموعہ قراردینا چاہیے۔ انھوں نے متعدد اسلامی اور غیر اسلامی ملکوں کے تبلیغی دورے کیے اور بہت سے اجتماعات میں مؤثر تقریریں کیں۔ انتظام و انصرام اور تبلیغ دین اور ترویج کتاب وسنت میں وہ والد محترم کے نقشِ قدم پر چلے بلکہ واقعہ یہ ہے کہ جو کام والد محترم اپنی بیماری یا کسی اور وجہ سے مکمل نہیں کر پائے تھے مولاما محمد مدنی نے ان کاموں کی تکمیل کا عزم کیا اور اس میں اللہ نے ان کو کامیابی عطا فرمائی۔ افسوس ہے موت نے ان کو مہلت نہ دی ورنہ ان کے ارادے بہت بلند تھے۔ وہ بڑے عزم و ہمت کے عالم دین تھے۔ عمر کی زیادہ منزلیں طے نہیں کی تھیں کہ بعض خطرناک بیماریاں ان پر حملہ آور ہو گئیں۔ وہ لاہور کے جناح ہسپتال میں داخل تھے۔ اور حافظ احمد شاکر18فروری 2002ءکو تین بجے کے قریب ان کی عیادت کے لیے ہسپتال پہنچے تو ان کی میت ہسپتال کے صحن میں ایمبولینس میں رکھی جا رہی تھی۔ دوسرے دن 19۔ فروری کو جنازہ تھا۔ میں اور حافظ احمد شاکر جہلم جا کر جنازے میں شامل ہوئے۔جہلم شہر اور اس علاقے کے علاوہ مختلف مقامات کے بے شمار لوگ جنازے میں شریک تھے۔مرحوم نے صرف 56برس عمر پائی۔ مولانا مرحوم جامعہ علوم اثریہ میں سعودی عرب کی طرف سے بطور مبعوث خدمات انجام دیتے تھے۔ (اللّٰه م اكرم نزله ووسع مدخله وادخله جنت الفردوس۔) 2۔۔۔قاری عبدالرشید : حافظ عبدالغفور جہلمی کے دوسرے بیٹے کا نام قاری عبدالرشید ہے۔ انھوں نے جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن اور جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ میں تحصیل علم کی۔ جامعہ |