نے فراہم کرکے تحقیق وتدقیق اور معلومات کا حامل یہ مرقع طلباء اور اہل علم کے لیے تیار کردیا ہے۔“[1] معلوم نہیں یہ بیش قیمت بیاض اب محفوظ ہیں یا نہیں۔اگرحضرت کے کسی صاحبزادے یا عزیز اورشاگرد کے پاس موجود ہیں تو اس بہت بڑے علمی ذخیرے کو کتابی شکل میں شائع کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔اگریہ کام مشکل ہوتو کسی جماعتی اخبار میں قسط واران کی اشاعت کا اہتمام کرنا چاہیے۔حضرت مولانا عطاء اللہ صاحب کی یہ تحریر بھی ستائیس برس قبل(مئی 1978ء) کی ہے۔انھوں نے مکتبہ سلفیہ کی طرف سے حضرت مولانا کی کتاب”خاتمہ اختلاف“ شائع کی تھی۔اس کتاب کے شروع میں”حضرت مؤلف کے مختصر حالات“ کے عنوان سے مولانا سے متعلق چند باتیں تحریر فرمائی تھیں، جن میں ان بیاضوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔اب یہ ذخیرہ علم وتحقیق کہاں ہوگا؟اس قسم کے بہت سے علمی ذخائر ہیں جوہمارے علمائےکرام نے چھوڑے اور افسوس ہے کہ ہم نے نہایت بیدردی اور بے رحمی سے ضائع کردیے۔ حضرت مولاناکھنڈیلوی کے متروکہ علمی ذخیرے کے متعلق مولانا عطاء اللہ حنیف کے مضمون کا ایک اور اقتباس ملاحظہ ہو۔ ”حضرت کے ذخیرہ کاغذات میں مشاہیر علماء(مثلاً) مولانا حافظ عبداللہ روپڑی، مولانا محمد شرف الدین دہلوی، مولانا احمد اللہ دہلوی، مولانا محمد زکریا حنفی سہارن پوری، مولانا عبدالجلیل سامرودی، مولانا عبیداللہ رحمانی، مولانا محمد اسماعیل(گوجرانوالہ) مولانا حافظ محمد گوندلوی کے مکاتیب کا ایک ذخیرہ بھی ہے جو صحاح ستہ کے مشکل تدریسی مقامات وغیرہ کے حل پر مشتمل ہے۔“[2] کچھ پتا نہیں، مختلف اہل علم کے خطوط کا یہ نادرعلمی ذخیرہ کسی نے محفوظ کیا یا نہیں۔اگر یہ محفوظ ہےتو کسی جماعتی اخبار میں اس کی اشاعت کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ اہل علم اس سے مستفید ہوسکیں۔ حضرت مولانا مرحوم تدریس کے علاوہ تحریر کا بھی پاکیزہ ذوق رکھتے تھے۔ان کا اصل موضوع حدیث اوراس کے متعلقہ علوم تھا۔اس سلسلے کے مختلف عنوانات پر جن اخبارات میں ان کے افکارِ عالیہ شائع ہوتے رہے، ان میں”اہلحدیث“(امرتسر) ”تنظیم اہلحدیث“(روپڑ، پھر امرتسر) |