بات طالب علم کے ذہن میں اتارنے کی پوری کوشش فرماتے اور یہی ذوق تدریس طلباء کے ذہنوں میں راسخ کرنے کا جذبہ رکھتے تھے۔ خالص علمی اور تحقیقی ذہن کے مالک تھے۔علمائے کرام کے باہمی بحث ومباحثے سے کنارہ کش رہتے اور ان کے شب وروز درس وتدریس اور مطالعہ کتب میں گزرتے تھے۔ پینتالیس برس میں پھیلی ہوئی طویل مدت میں جن حضرات نے ان کے حلقہ شاگردی میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ان سب کی یا ان میں سے آدھی یا آٹھویں دسویں حصے کی تعداد کی بھی نام بنام نشاندہی کرنا ممکن نہیں، بلکہ اگرحضرت مرحوم خود بھی زندہ ہوتے تو ان کی یقینی تعداد نہ بتاسکتے۔البتہ جن حضرات کا ہمیں علم ہوسکا ہے، ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں:مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی، شیخ الحدیث مولانا حافظ محمد اسحاق حسینوی، مولانا حافظ محمد بھٹوی، مولانا حافظ عبدالرحمٰن صانوی فیروزپوری، مولانا حافظ محمد اسماعیل ذبیح۔ان بزرگانِ عالی قدر نے ان سے دہلی میں استفادہ کیا۔ان کے علاوہ ان کے فرزندانِ گرامی مولانا قاری عبدالخالق رحمانی، مولانامحمد، مولانا عبدالقہار، مولانا عبدالمالک، ان کے بھانجے مولانا عبدالحئی اورمولانا محمد اسحاق خائف ان کے شاگردوں میں شامل ہیں۔جن حضرات نے ان سے کھنڈیلامیں استفادہ کیاان میں میرے مرحوم دوست اور ہم وطن حاجی محمد رفیق زبیدی کا نام بھی شامل ہے۔مولانا کے یہ چہیتے شاگرد تھے، جنھیں وہ پیار سے”مٹا“ کہہ کر پکارتے تھے۔حاجی محمد رفیق زبیدی کے بقول دورانِ تعلیم کسی شاگرد کو مولانا کا فرمان سمجھنے میں دقت پیش آتی تو پیار کے لہجے میں اس شاگرد سے فرماتے:”توتے شاہ کے بھائی نتھوشاہ“ میری بات غور سے سنو۔ مولانا محمداورعبدالحئی نے ان سے کھنڈیلا میں اور عبدالمالک اورعبدالقہار نے اوکاڑہ میں حصولِ علم کیا۔ حضرت مرحوم کے فاضل تلمیذ مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی ان کے طریق تدریس کے بارے میں فرماتے ہیں: ”آخری ایام حیات تک یہ طریقہ رہاکہ مطالعہ کے دوران فوائد نادرہ جو سامنے آتے، ان کو اپنی بیاص میں محفوظ کرلیتے تھے اوریہ علمی فوائد ہرقسم کے تھے۔تفسیری، حدیثی، لغوی، نحوی، صرفی، ادبی، کلامی، تاریخی اور شعروشاعری(عربی، فارسی، اردو) وغیرہ پر مشتمل۔ اس قسم کے بیاض آٹھ دس کےقریب ہیں۔درسِ تفسیر وحدیث میں مناسب مقامات پر طلباء کو بھی ان سے مستفید فرماتے تھے۔ ”اگر ان بیاضوں کو مرتب کرکے یکجا کردیاجائے تو بہ یک نظر اندازہ ہوجائے گا کہ کس ذوق وانہماک کے ساتھ کم وبیش چالیس برس تک کہاں کہاں سے یہ تنکے مولانا |