کیا کیا ہم نے ان کے ہجر میں صدمے اٹھائیں گے اوصاف ان کے یاد کریں گے تمام عمر روئیں گے اور جلیسوں کوان کے رلائیں گے غم خواری کرنے والا تو دنیا سے اٹھ گیا اب کس کو اپنے غم کی کہانی سنائیں گے وقعت رہی اپنی نہ آبرو رہی اے بے مزہ حیات فقط ایک تو رہی[1] بابو رام سکسینہ نواب صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں: نواب صاحب موصوف عربی فارسی کے بڑے عالم و فاضل اور اپنے زمانے کے مشہور مفسر اور محدث سمجھے جاتے تھے۔ مفتی صدالدین آزردہ کے شاگرد تھے اور تقریباً ڈیڑھ سو ضخیم کتابوں کے مصنف تھے۔ شعر اور اہل علم کے بڑے قدردان تھے، اُردو میں توفیق اور فارسی میں نواب تخلص کرتے تھے۔[2] تاریخ ادب اُردو کے مصنف شہبیر بابو رام سکسینہ کو شاید نواب صاحب کی تمام تصانیف کا علم نہیں ہو سکا ان کی عربی، فارسی، اُردو کی کل تصانیف کی تعداد دو سو تیس کے قریب ہے، جن میں ڈیڑھ سو سے زائد کتابیں بڑی ضخیم اور کئی کئی جلدوں پر محیط ہیں۔ ایک تفسیر قرآن پندرہ جلدوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ لیکن اس کے باوجود نواب صاحب اپنی تصانیف کا ذکر نہایت منکسرانہ انداز میں کرتے ہیں اس ضمن میں ان کے الفاظ قابل مطالعہ ہیں۔ ”میری تالیفات کا غالب حصہ علمائے راسخین کے تراجم اور آثار سلف کے نقول پر مبنی ہے جو ایک زبان سے دوسری زبان میں ترجمہ نقل کیے گئے ہیں۔ جو کچھ میں نے اپنی تالیفات میں لکھا ہے وہ درحقیقت علمائے سابقین اور ائمہ امت کا علم ہے، نہ کہ میرا علم واجتہاد ہے۔“[3] اصل مقصد زندگی کتاب وسنت کی اشاعت اور بدعات و محدثات کی بیخ کنی نواب صدیق حسن خاں کی |