وفات پر اظہار حزن و ملال نواب صاحب کی وفات پر بہت سے اصحاب قلم نے نظم و نثر میں اظہار حزن و ملال کیا۔ان سب کا تذکرہ تو مشکل ہے البتہ ایک عالم و شاعر منشی جمیل احمد سہسوانی کا مرثیہ لکھنے کو جی چاہتا ہے۔ لیکن مرثیہ پڑھنے سے پہلے چند الفاظ میں ان کا تعارف ہوجانا چاہیے، نیز ان کے دوچار اشعار بھی پرھ لیے جائیں جن سے ان کے رنگ غزل گوئی کا پتا چلے گا۔ منشی جمیل احمد سہسوانی 1297 ء(1880ء)میں بھوپال آئے۔ یہیں تعلیم پائی۔ تعلیم سے فارغ ہو کر بھوپال میں ملازمت اختیار کر لی اور کئی عہدوں پر مامور رہے۔ شعر و سخن کی صلاحیت رکھتے تھے اور غزل و قصیدہ دونوں میں امتیاز حاصل تھا۔آخر عمر میں اپنے سہسوان چلے گئے تھے۔وہیں 1935ءمیں وفات پائی۔اب غزل کے چند شعر ملاحظہ ہوں۔۔۔ کیا پوچھتے ہو داغ یہ دل میں کہاں کہاں کے ہیں کچھ آپ کے دیے ہوئے کچھ آسماں کے ہیں کچھ بلبلوں کو یاد ہیں کچھ قمریوں کو حفظ عالم میں ٹکڑے ٹکڑے مری داستاں کے ہیں یاروں سے چھپ کے آپ کہاں جائیں گے جمیل ہم بھی سمجھ گئے ہیں ارادے جہاں کے ہیں منشی جمیل احمدسہسوانی نے نواب صدیق حسن خاں کی وفات پر ایک مرثیہ لکھا تھا جس کا انداز مولانا حالی کے اس مرثیے کا سا تھا جو انھوں نے غالب کی موت پر لکھا تھا۔ حالی جیسی زبان، وہی جذبہ خلوص، اور وہی سادگی و روانی۔ ملاحظہ فرمایے۔ اب کس کو ہم سخن اپنا سنائیں گے کس کی زباں سے داد سخن پائیں گے ڈھونڈیں گے گو زمانہ میں شاعر سخن شناس ایسا نہ پائیں گے کوئی ایسا نہ پائیں گے رکھتے تھے ہم نصیبوں سے امید بہتری اس کی خبر نہ تھی ہمیں یہ دن دکھائیں گے بے قدریوں کا اپنی قلق ان کے غم کا رنج |