Maktaba Wahhabi

273 - 665
وحدیث کی روشنی میں لکھی گئی ہیں، اس لیے ہم نے ان میں سے بعض کتابوں کو نواب صاحب کی حدیث سے متعلق کتابوں کی فہرست میں بھی شامل کیا ہے۔ ردّتقلیدمیں نواب صاحب نے عربی، فارسی، اردو میں گیارہ کتابیں تصنیف کیں۔اس موضوع سے متعلق ان کی عربی زبان میں تین کتابیں ہیں، ایک الاقلید لادلۃ الاجتہاد والتقلید، دوسری الطریق امثلی فی ارشاد الی ترک التقلید واتباع ماہوالہویٰ، الجنۃ فی الاسوۃ الاحسنۃ۔اردو میں ایک کتاب بذل المنفعہ لایضاح الارکان الاربعہ ہے۔اس موضوع پر فارسی زبان میں ان کی تین تصانیف ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ہرموضوع ان کے الشہب فکر کی زد میں ہے اور ہر علمی میدان میں وہ اپنے اقران ومعاصرین سے آگے نظر آتے ہیں۔پھر جس موضوع کو زیر بحث لاتے ہیں، اس کے تمام پہلوؤں کی خوبصورتی سے وضاحت کرتے چلے جاتے ہیں۔کسی مقام پر کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہیں ہوتی۔ان کے علم بہاؤ ان کے سمند خامہ کو تیزرکھتاہے۔ نواب صاحب شاعر بھی تھے، عربی، فارسی، اردوتینوں زبانوں میں انھوں نےشعرکہے۔بہت سے شعراء کے اشعار انھیں زبانی یادتھے۔چنانچہ اپنی بعض تصانیف میں مناسب مواقع پر وہ ایسے خوبصورت شعر درج کرتے ہیں کہ جن سے کلام میں ایک نئی روح ابھرآتی ہے۔ابقاء المنن میں وہ کثرت سے شعر لاتے ہیں اور ہر شعر نگینے کی طرح ان کے طرز بیان میں موزوں ہوتا چلا جاتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ شاعر نے اسی موقعے کے لیے یہ شعر کہا تھا۔ نواب صاحب بے حد فراخ حوصلہ عالم دین تھے اور اختلاف مسلک کے باوصف اصحاب علم سے وسیع تعلقات رکھتے تھے اور ان سے میل جول کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔مولانا عبدالحئی فرنگی محلی سے تمام عمرنواب صاحب کی قلمی بحثیں رہیں، لیکن جب انھیں مولانا کے انتقال کی خبر ملی تو اسی وقت تمام دفاتر بند کرنے کا حکم جاری کردیا اور تعزیت کےلیے خود فرنگی محل تشریف لےگئے۔ الزامات اور سلب اختیارات نواب صاحب کے بے شمار حاسد بھی تھے، جن کے لیے ان کی علمی سرگرمیاں بھی ناقابل برداشت تھیں اوران کا دنیوی جاہ ومرتبہ بھی شدید ذہنی اذیت کا باعث تھا۔انھوں نے انگریزی حکومت سے ان کے متعلق اس قسم کی شکایات کا سلسلہ بہت وسیع کردیاتھاکہ ان کے والد(سید اولاد حسن) کا تعلق سید احمد شہید اور مولانا اسماعیل شہید دہلوی کی جماعت مجاہدین سے تھا جو انگریزی حکومت کے خلاف برسرپیکار تھی اور اب بھی سرحد پار کے قبائلی علاقوں میں وہ لوگ انگریزوں سے جہاد میں مصروف ہیں۔نواب صدیق حسن خاں بھی اپنے والد کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔وہ
Flag Counter