مولانا آروی کے نام سر سید کے خطوط ان کے کسی استفسار کے جواب میں ہیں اوربے حد دلچسپ ہیں۔ ہر خط میں سر سید مولانا کو ان الفاظ سے مخاطب کرتے ہیں: ”جناب مولانا مخدوم و مکرم من مولوی محمد ابراہیم صاحب زاد فیضہ“ پہلے خط میں”السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ“لکھا ہے۔دوسرے اور تیسرے میں”سلام مسنون “لکھا ہے۔ پہلا خط 14۔دسمبر 1894 ءکو لکھا۔دوسرا 5۔ فروری 1895ءکو اور تیسرا خط 10فروری 895ءکو تحریر کیا۔ تینوں خط علی گڑھ سے لکھے ہیں۔ ہر خط کے نیچے لکھا ہے۔”خاکسار۔سید احمد۔ میرا جی توچاہتا ہے کہ سرسید کے تینوں خطوط یہاں درج کردیے جائیں، کیوں کہ وہ قارئین کے لیے فائدے سے خالی نہیں ہوں گے، لیکن میں صرف دوسرا خط درج کروں گا۔ پہلے خط سے معلوم ہوتا ہے کہ مولانا نے ان سے ان کی تصانیف طلب کی ہیں، اس کے جواب میں سر سید نے جو خط لکھا ہے، اس کی چند سطریں یہاں درج کی جاتی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: ”آپ کا نوازش نامہ مورخہ نہم دسمبر پہنچا۔ممنون ہوا۔میں آپ کے عنایت نامے کو باعث افتخاراور آپ کے دعائیہ کلمات کو باعث نجات سمجھتا ہوں۔ آپ نے باوجود اس کے کہ جو حقیقت حال میری تصنیفات کی تھی(اور جو)میں نے پوست کندہ آپ کی خدمت میں عرض کردی تھی، دوبارہ آپ نے ان کو طلب فرمایا ہے۔ میں ان کو نذرکرنے سے افتخار حاصل کروں گا۔ اس وقت میں رام پور جاتا ہوں۔دوتین روز میں واپس آؤں گااور جس قدر کتابیں موجود ہیں، ان کا ایک ایک نسخہ خدمت عالی میں بھیج دوں گا۔“ اس کے بعد اور باتیں بھی ہیں جو سر سید نے مولانا کے مکتوب گرامی کے جواب میں لکھی ہیں۔ان کا تعلق علمائے کرام سے بھی ہے اور عام مسلمانوں سے بھی۔ تیسرا خط بھی دلچسپ ہے۔خلاف اسلام رسوم و رواج کے متعلق مولانا اسماعیل شہید کی تحریک اور ان کے نقطہ نظر کی تعریف کرتے ہوئے سر سید لکھتے ہیں۔ ”مولانا اسماعیل شہید اگر اسی قسم کے خیالات میں مبتلا رہتے تو ہندوستان میں سے شرک و بدعت کی تاریکی کیسے دور ہوتی ؟“ اس سے آگے تحریر کرتے ہیں: آپ کو معلوم نہ ہو گا مگر آپ معاف فرمائیے گا کہ میں نے وہابیوں کی تین قسمیں قراردی ہیں۔ایک صرف وہابی۔ دوسرے وہابی اور کریلا۔ تیسرے وہابی کریلا اور نیم چڑھا۔ میں |