Maktaba Wahhabi

234 - 665
یہی ترجمہ بعد میں مولوی نذیر احمد صاحب کا ترجمہ کہلایا اور انہی کی ذات گرامی کے باعث(مطبع انصاری) اپنی صحت کےاعتبار سے ہندوستان بھر میں مشہور ہوا۔1893؁ء میں مجھے بھی ان سے ”صرف بہائی“ کے چند اسباق پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔ بہادر سنگھ کو ان سب بزرگوں نے مشورہ دیا کہ اب وہ خود اپنے وطن جائیں اور گھروالوں اور دوستوں کو پند ونصائح کریں۔چنانچہ انھوں نے ان کی رائے پر عمل کیا اور بغیر اطلاع کےفرید آباد پہنچے تو اہل دیہہ نے ان کا خیر مقدم کیا۔مگر دوسرے ہی روز پھر سب جمع ہوئے اور انھوں نے ان کے والد(سردار ہیرا سنگھ) کا بائیکاٹ کردیا اور یہ الزام لگایا کہ وہ بباطن مسلمان ہوگئے ہیں اور یہ کہ انھوں نے بہادرسنگھ کو فراری کے مواقع بہم پہنچائے۔اس حرکت سے قریب کے دیہات میں بہت چرچے ہوئے اور لوگ ان کو دیکھنے اور ملنے کے لیے دور دور سے آئے اور ان کے مواعظِ حسنہ سے فیضیاب ہونے لگے۔انھوں نے اچھی خاصی تبلیغ شروع کردی۔مسائل دریافت کرنےوالوں اور فتاویٰ حاصل کرنے والوں کا تانتا سا لگ گیا۔گھر والے اس سے بہت پریشان تھے کہ کیا کیا جائے۔وقت پر وہیں اذان دینا اور وہیں نماز پڑھنا کوئی بات ہی نہ تھی۔گھر والے ان کو بہادر سنگھ کہہ کر پکارا کرتے تھے۔انھوں نے کہا کہ آئندہ انھیں صرف”محمد“ کہہ کر پکارا کریں۔ اسے ان سب نے اس شرط پر تسلیم کیا کہ وہ گھر پر نماز نہ پڑھا کریں بلکہ قصبے سے دور ادا کیا کریں۔اس سے ان کی دل آزاری ہوتی ہے۔انھوں نے ان کی شرط مان لی اور قصبے سے تھوڑے فاصلے پر ایک چاہ کے قریب، ایک درخت کے نیچے قیام گاہ بنائی اور کافی عرصہ اسی حالت میں گزارا۔ ایک روز کرنا خدا کا کیا ہوا کہ وہ اپنے گھر کے دالان یا کمرے میں کہیں آرام کررہے تھے کہ ان کی اہلیہ محترمہ کوئی شے لینے یا رکھنے کے لیے برابر کی کوٹھڑی میں جانا چاہتی تھی۔جیسے ہی وہ پاس سے گزری انھوں نے جراءت کرکے آنچل پکڑ کر اسے روک لیا۔اس سے قبل تبدیلی مذہب کی بنا پر دونوں میاں بیوی کے لب پر مہر خاموشی تھی۔انھوں نے کہا کہ بولنا چالنا کیوں بند کررکھا ہے۔میں وہی ہوں جو چند سال پیشتر تھا۔میرا تمہارا رشتہ قطع ہونے والا نہیں ہے۔کہواب تمہاری کیا مرضی ہے؟اس عفیفہ نے جواب دیا کہ میری کوئی مرضی نہیں۔مرضی تو آپ کی ہے۔میں آپ کی ہوچکی ہوں۔ہرحال میں اسی گھر میں رہوں گی اور یہاں سے مرکر ہی نکلوں گی، اور آپ کا جوحکم ہوگا اسے بجالاؤں گی۔مولوی صاحب نے کہا کہ اگر یہی بات ہے تو میں بھی تمہارا ہوچکا ہوں۔اگرتم اسلام قبول کرلو گی تو ہم میاں بیوی رہ سکتے ہیں اور میں تمہارے اسلام لانے سے اپنے تئیں بہت خوش قسمت سمجھوں گا۔اہلیہ محترمہ نے رضا مندی ظاہر کی تو وہ بہت خوش ہوئے اور کہا کہ اللہ تعالیٰ مسبب الاسباب ہے، جس نے تمہارے دل میں تبدیلی پیدا کی ہے، وہی آئندہ کے لیے بھی کوئی
Flag Counter