گھوڑوں پر نکلے مگرکسی کا کھوج نہ لگا۔جوگی بننے والے کا تو پتا ہی نہیں کہ وہ کس پہاڑ کی کھوہ میں جابیٹھا۔مگر بہادرسنگھ سیدھے مولانا حافظ عبدالمنان صاحب کے پاس وزیرآباد پہنچے اور مشرف بہ اسلام ہوکران ہی کے پاس رہنے اور دینیات پڑھنے لگے۔کیسوں کو پٹوں میں تبدیل کرلیا۔ایک سال کے بعد قصبے والوں کو ان کا سراغ مل گیا۔چنانچہ بہت سے اقربا وزیر آباد آئے اورسمجھا بجھا کر بہادر سنگھ کو ہمراہ لے گئے اور وہاں ان کی کڑی نگرانی رکھی۔ظاہر ہے بہادر سنگھ کے ساتھ نرم گرم سبھی قسم کا سلوک ہوا ہوگا مگر بہادرسنگھ نے کہا میں تو اسلام قبول کرچکا۔اب کسی شرط پر اس سے لوٹنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔آپ کا جو جی چاہے کیجئے۔سب کچھ برداشت کروں گا۔اس بات سے دونوں وقت کھانا کھانے کے سلسلے میں ایک کہرام سا مچا کرتا تھا کیونکہ بہادرسنگھ چوکے کے باہر کھانا کھاتے تھے۔ بہادر سنگھ پرحقانیت غالب آچکی تھی۔صداقت ان کے دل میں گھر کرچکی تھی۔ہروقت کے مظاہروں کا ان پر کوئی اثر نہ ہوا۔ایک روز موقع پاکروہ پھر کھسک گئے اور سیدھے لاہور پہنچ گئے اور کسی مسجد میں مقیم ہوکر دینی تعلیم کے حصول میں منہمک ہوگئے۔گزارے کے لیے دو ٹیوشن تلاش کرلیے۔تقریباً سال بھر کے بعد یہاں بھی ان کو کسی نے پہچان لیا۔چنانچہ ان کےوالد دوبارہ لاہور آکر ان کو فرید آباد لے گئے اور سخت نگرانی میں رکھا۔اس دوڈھائی سال کے عرصے میں وہ کافی لکھ پڑھ گئے تھے۔اچھے خاصے جوان اورسوچ سمجھ والے ہوگئے تھے۔جب لوگ ان کو سمجھاتے تو وہ بدلائل ان کو قائل کرتے۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کےوالد صاحب(ہیرا سنگھ) کے رویے میں تبدیلی آگئی وہ مائل بہ اسلام ہوتے گئے اور عقیدۃً مذبذب ہوگئے۔بہادر سنگھ کو انھوں نےڈھیل دے دی کہ جس رنگ میں رہنا چاہورہو۔خوش رہو۔نگرانی ترک کردی۔ بہادرسنگھ کے دماغ میں دینی تعلیم کا شوق گھر کرچکا تھا۔ہر وقت اسی فکر میں رہتے کہ ہوسکے تو پھر قصبے سے چلا جاؤں۔چنانچہ موقع پاتے ہی وہ دارالعلوم دیوبند، پہنچے اور چند سال میں فارغ التحصیل ہوکر دہلی آگئے اور فتح پوری میں مقیم ہوئے۔یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ دہلی میں کہاں کہاں تعلیم پائی۔بہرصورت دہل میں ان کی بہت قدر ہوئی۔شمس العلماء مولانا نذیر حسین صاحب عرف میاں صاحب کے باعث پھاٹک حبش خاں میں ان کو ایک مکان کرایہ پر مل گیا۔مولوی عبدالمجید صاحب مناظر کے مطبع انصاری میں کتب دینیات کے مصحح ہوگئے۔ان کا میل جول شمس العلماء مولوی نذیراحمد صاحب ایل ایل ڈی، مولوی عبدالرب صاحب میر شاہجاں صاحب، مولوی تلطف حسین صاحب وغیرہم اور دیگر بزرگوں سے ہوگیا اور ان کی قابلیت کے جوہر کھلے تو مولوی نذیر احمد صاحب نے ترجمہ قرآن جیسا مشکل کام ان کے سپرد کیا جس کو انھوں نےبااحسن وجوہ انجام دیا۔ |