سال وہاں یہ خدمت انجام دی۔پھر شہسرام گئے۔ایک سال وہاں قیام رہا۔اس وقت زیادہ رجحان منطق وفلسفہ، ادبیات اور فقہ واصول کی طرف تھا۔فقہ حنفی کی روشنی میں فتوے تحریر فرماتے تھے۔پھر مولانا سید امیر حسن سہسوانی کے فیض صحبت سے قرآن وحدیث سے تعلق بڑھا تو تحقیق کارخ بدل گیا اورخالص کتاب وسنت کو مطمع نظرقراردے لیا۔اب تقلید کی جگہ عمل بالحدیث نے لے لی تھی اور ہر معاملے میں مسلک محدثین اور اقوال صحابہ وآثار سلف کو پیش نگاہ رکھاجاتا تھا۔میاں صاحب کے حلقہ درس میں شرکت سے تو بالکل کایا پلٹ گئی تھی۔باالفاظ واضح کہنا چاہیے کہ حنفیت کو چھوڑ کر دائرہ اہل حدیثیت میں داخل ہوگئے تھے۔ تعلیم سے فراغت کے بعد(جیساکہ گذشتہ سطور میں بتایاگیا) سلہٹ اور شہسرام میں کچھ وقت گزارا۔یہ عارضی سا سلسلہ تھا۔ملازمت کی باقاعدہ ابتدا سینٹ جانسن کالج آگرہ سے کی۔وہاں عربی اور فارسی کے پروفیسر کے طور پر پندرہ سال خدمت سرانجام دیتے رہے۔ اس کے ساتھ ہی اپنے مکان پر صبح وشام خالص دینیات کی تدریس کی سرگرمیاں بھی جاری رکھیں۔طلباء کی کثیر تعداد ان کے حلقہ درس میں شامل ہوئی اور بے شمار تشنگانِ علوم نے ان سے استفادہ کیا۔قیام آگرہ کے دور ہی میں حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی۔مکہ مکرمہ میں شیخ احمد شرقی اور مولانا محمد سہارن پوری سے بعض کتابیں پڑھیں۔ اس زمانے میں حضرت نواب سید صدیق حسن خاں صاحب کی وجہ سے بھوپال کو مرکز علم اور مجمع علماء کی حیثیت حاصل تھی۔5محرم 1295ھ(10۔جنوری 1878ء) کو مولانا محمد بشیر بھوپال پہنچ گئے۔نواب صاحب نے انھی دیکھ کر نہایت مسرت کا اظہار کیا اور بے حدتکریم سے پیش آئے۔ریاست کے مدارس کےافسراعلیٰ مقرر کیے گئے۔اس کے علاوہ ریاست کا محکمہ افتا بھی ان کے سپرد ہوا۔لوگ تحریری صورت میں جو فقہی مسائل دریافت کرتے تھے، ان سب کے جواب مولانا محمد بشیر فاروقی سہسوانی دیتے تھے، اس لیے کہ اس عہد میں وہ ریاست بھوپال کے سب سے بڑے عالم تھے اور انھیں کتاب وسنت اور فقہیات کے ماہر سمجھا جاتاتھا اور یہ بات بالکل صحیح تھی۔قیام بھوپال کے زمانے میں مولانا محمد بشیر سہسوانی نے درس وتدریس کا ہنگامہ بھی جاری رکھا اور بہت سے علماء وطلباء نے ان سے تفسیر وحدیث اوردیگر علوم مروّجہ میں حصول فیض کیا۔ان کے انداز تفہیم اور طریق تدریس سے طلباء نے علم نہایت متاثر ہوتے تھے۔اسی زمانے میں مولانا ممدوح نے شیخ حسین بن محسن انصاری یمانی سے مستفید ہونے کا شرف حاصل کیا۔ ریاست کے مدارس کی نگرانی، فتویٰ نویسی اور درس وتدریس کے علاوہ مولانا ممدوح تصنیف وتالیف کا فریضہ بھی سرانجام دیتے تھے۔وہ اپنے عہد کے عظیم محقق اور ممتاز مصنف تھے۔ان کی |