میں نے حالت خواب میں حضرت مولانا مبارک پوری کو نہیں دیکھا اور انھوں نے چہرہ مبارک سے کپڑا نہیں اٹھایا۔لیکن مجھے ان کے قریب کھڑے ہوئے ایک تو یہ محسوس ہوا کہ وہ بہت خوش ہیں اور مسکراتے ہوئے مجھے فرمارہے ہیں:”تشریف رکھئیے۔“ دوسری بات چشم تصور میں اس وقت یہ آئی اور اس طرح آئی کہ گویا میں انھیں چادر کےاندر سے دیکھ رہا ہوں کہ ان کا قدمیانہ ہے، جسم گداز ہے، چہرہ مبارک قدرے چوڑا ہے، رنگ گندی ہے اور ناک نقشہ بہت مناسب ہے۔یعنی سراپا بالکل وہی ہے جو قاضی اطہر مبارک پوری مرحوم کی کتاب تذکرہ علمائے مبارک پور کے حوالے سے گزشتہ صفحات میں بیان کیاگیا ہے، بلکہ جب یہ سراپا قاضی صاحب مرحوم کی کتاب میں پڑھ رہا تھا توخواب والا سراپا میری آنکھوں کےسامنے گھوم رہا تھا۔کیونکہ خواب قاضی صاحب کی کتاب پڑھنے سے تقریباً دوسال پہلے کا ہے۔ یہاں یہ عرض کردوں کہ حضرت مولاناحسین احمد مدنی کی زیارت کا شرف مجھے دو دفعہ حاصل ہوا ہے۔ایک دفعہ دس گیارہ سال کی عمر میں ان کی تقریر سنی۔وہ ضلع فیروز پور کے ایک تحصیلی مقام ”زیرہ“ میں تشریف لائے تھے۔حضرت مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی مرحوم ان دنوں ہمارے ہاں کوٹ کپورہ(ریاست فرید کوٹ) میں خدمت تدریس وخطابت سرانجام دیتے تھے۔مجھے یاد پڑتا ہے مولانا سمیت بہت سے لوگ خاص طور سے بس لے کر وہاں گئے تھے۔رات کو حضرت مولانا مدنی کی تقریر سنی تھی۔ دوسری مرتبہ اکتوبر 1945ء میں دہلی میں جمیعت علمائے ہند کےدفتر میں ایک میٹنگ تھی جو مولانا مدنی کی صدارت میں ہوئی تھی اور دو دن جاری رہی تھی۔اس میٹنگ میں متحدہ ہندوستان کےمختلف علاقوں کے کم وبیش دو سو افراد شامل تھے، مولانا سید محمد داؤد غزنوی، مولانا عطء اللہ حنیف اورمولانا عبدالمجید سوہدروی بھی تشریف فرماتھے۔میں بھی اس میٹنگ میں شریک تھا۔اس میٹنگ میں مولانا مدنی کو بہت قریب سے دیکھا اور ان کی باتیں سنیں۔اس وقت میری عمر انیس بیس سال کی تھی۔ اس خواب کے جواوپر بیان کیا گیا ہے، میرے خیال میں دو حصے ہیں۔ایک حصے کا تعلق حضرت مولانا مدنی کی سفید دستار مبارک سے ہے جو چارپائی سے ہوتی ہوئی میری طرف آئی اورمیں نے بڑی خوشی سے پکڑی۔دیوبندی مسلک کے عالم ومصنف حافظ عبدالرشید ارشد کو پیش کرنا چاہی لیکن وہ آناً فاناً کہیں غائب ہوگئے اور دستار میرے ہاتھ میں رہی۔پھر پتا نہ چلاکہ اس کا کیا بنا۔مولانا مدنی خود وہاں نہیں ہیں۔ دوسرے حصے کا تعلق حضرت مولانا مبارک پوری سے ہے، وہ جو کچھ فرمارہے ہیں، نہایت شیریں آواز اور مؤثر تریں انداز میں فرمارہے ہیں۔وہ میرے غریب خانے میں میں چادر اوڑھے لیٹے |