خط نہایت درد ناک ہے۔غالباً یہ ان کی زندگی کا آخری خط ہے جو انھوں نے اپنے دست مبارک سے تحریر فرمایا۔یہ خط آئندہ صفحات میں درج کیا جارہا ہے۔ اصلاحی اور علمی تحریکوں میں شمولیت مولانا مرحوم اپنے عہد کی بہت سی اصلاحی اور علمی تحریکوں میں شامل رہے اور ان کی مالی امداد کرتے رہے، مثلاً دارالعلوم ندوۃ العلماء کے حامی تھے اور اس کی ہرقسم کی اعانت فرماتے تھے۔مولانا عبدالرحیم صادق پوری نے پٹنہ میں مدرسہ اصلاح المسلمین قائم کیا تو کافی عرصہ اس کے سیکرٹری رہے۔1297ھ میں آرہ میں مولانا ابومحمد ابراہیم نے مدرسہ احمدیہ جاری کیا تو مولانا عظیم آبادی اس کے اہم رکن تھے اور اس کی تعمیر وترقی میں کوشاں رہتے تھے۔دائرۃ المعارف النظامیہ (حیدر آباد دکن) کے رکن تھے۔تہذیب التہذیب اور تذکرۃ الحفاظ وغیرہ متعدد کتابیں اس ادارے کی طرف سے انہی کے مشورے سے شائع کی گئیں۔[1] اصحاب علم سے تعلقات ومراسم مولانا عظیم آبادی ہندوستان کے بہت بڑے اہلحدیث عالم تھے، لیکن ہر مسلک فقہی کے اہل علم سے گہرے عالمانہ مراسم رکھتے تھے، یہی وجہ ہے کہ جہاں اہل حدیث نہایت احترام کے الفاظ سے ان کاتذکرہ کرتے ہیں، وہاں غیر اہل حدیث بھی انتہائی اکرام کے ساتھ ان کی علمی مساعی کا ذکر فرماتے ہیں۔چنانچہ مولانا سید عبدالحئی حسنی نزہۃ الخواطر میں ان کے ترجمے کا آغاز الشیخ العالم الکبیر المحدث کے پر عظمت الفاظ سے کرتے ہیں اور فرماتے ہیں: (و عكف على التدريس و التصنيف، و التذكير، و بذل جهده في نصرة السنة، و الطريقة السلفية، و إشاعة كتب الحديث وجمع كتبها التي كانت عزيزة الوجود في السنة المطهرة، وأنفق مالاً في طبع بعض الكتب، وله منة عظيمة على أهل العلم بذلك)[2] یعنی فارغ التحصیل ہونے کے بعد مولانا عظیم آبادی درس وتدریس، تصنیف وتالیف اور وعظ وتذکیر میں مشغول ہوگئے اور اپنی تمام تر کوشش سنت رسول(صلی اللہ علیہ وسلم) کی ترویج، طریقہ سلف کی حمایت اور کتب حدیث کی اشاعت کے لیے وقف فرمادیں۔سنت مطہرہ |