مولوی تلطف حسین صاحب، غرض کہ اخبار میں گنجائش نہیں کہ تمام رؤسا کے نام لکھے جائیں۔ ”مرحوم کے اوصاف حمیدہ اور اخلاق پسندیدہ کے لکھنے کا یہ موقع نہیں ہے، خدا کرے کہ آپ کی سوانح عمری لکھنے کے لیے کوئی خداکا بندہ کھڑا ہو، اوراُس کی شان وحیثیت کے مواقع قلمبند کرے۔فقیر دین محمدایڈیٹر دارالعلوم کواگر فرصت ہوتی اور اُس کے پاس کافی میٹریل ہوتاتو اس سعادت کا وہ خود ہی فخر حاصل کرتا۔بہرحال یقین ہے کہ ”سلف ہیلپ“ کی قدر کرنے والی طبعیتیں اس عظیم الشان سوانح عمری کے لیے شوق ظاہر کریں گی اور کوئی محنت کش سعید الفطرت انسان اُن کے شوق کوپوراکرنے کے لیے ہمت چست کرےگا۔مرحوم شمس العلماء کی سوانح عمری میں یہ بات خاص طور پر تذکرے کے لائق ہے کہ غدر 1857ء سے پہلے آپ کے درس وتدریس کا سلسلہ فقہ اور حدیث دونوں کی نسبت تھا، لیکن غدر کے بعد آپ نے صرف حدیث شریف کو مخصوص کرلیا تھا اور اسی وجہ سے آپ کے آخری عمر کے شاگردوں میں زیادہ تروہی لوگ شامل ہوتے تھے جنھیں علم دین میں سب سے زیادہ حدیث سے دلبستگی ہوتی تھی۔اگر مسلمانوں کی بدقسمتی سے مقلدین وغیر مقلدین کے جھگڑے نہ اٹھتے توغالباً آپ کا فیض تدریس اس سے بھی زیادہ وسیع ہوتا۔ ” ہم اپنے مصیبت زدہ دل کی ان سطروں میں بھڑ اس نکالنے کے بعد اس مضمون کو مرحوم کے لیے دعائے مغفرت پر ختم کرتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ جن لوگوں کو مرحوم کی ذات سے عقیدت مندی ہوگی، وہ اپنا بہترین فرض تصور کریں گے کہ جس طرح مرحوم کے زمانے میں فیض کا چشمہ جاری تھا اور ہر مسلمان علمی استفادے کرسکتا تھا اُسی طرح اب بھی اُس کے برقرار رکھنے کی کوشش کی جائےگی اور آپ کے اعزہ اور خصوصاً مولوی عبدالسلام صاحب کے درد مند دل سے ہمدردی کا اظہار کیا جائے گا۔ میاں صاحب کی نماز جنازہ صلوٰۃ علی الغائب غالباً ہندوستان کے تمام شہروں، قصبوں اور بیشتر قریوں میں پڑھی ہوگی۔“ ........................................................................ افسوس ہے، اس زمانے کے تمام اخبارات کے تعزیتی مضامین حضرت کے سوانح نگار نے درج کتاب نہیں کیے۔جوانھوں نے درج کیے، وہ ہم نے یہاں لکھ دیے۔اب ان کا کہیں سے ملنا محال ہے۔ نثر کے علاوہ بذریعہ نظم بھی ان کی وفات پر اظہار حزن وملال کیا گیا۔ عربی میں بھی، فارسی میں بھی اور اردو میں بھی۔چنانچہ سوانح نگار مولانا فضل حسین بہاری فرماتے ہیں: ” اخبارات ہندوستان میں جس طرح بذریعہ مضمون نگاری کے آپ کا ماتم کیا گیا اسی طرح |