Maktaba Wahhabi

318 - 467
اپنا ذاتی تجربہ ہے۔ جہاں تک حجاز کا تعلق ہے۔ شاہ عبدالعزیز کے داخلہ سے قبل کے زمانے میں حاجیوں کو یوں کاٹ کر پھینک دیا جاتا تھا جیسے بکرے ذبح کئے جاتے ہیں اور وہ بھی لوگوں کے سامنے۔ کوئی کسی کو حاجی کو قتل کرنے سے روکنے کی ہمت نہ کرتا تھا۔ ان کو محض اس لئے قتل کر دیا جاتا تھا تاکہ ان کامال و متاع لوٹ لیا جائے۔ جب قاتل کومعلوم ہوتا کہ حاجی کی جیب میں صرف ایک ریال ہے تو وہ کہتا ’’ یہ ریال اس حاجی سے کہیں بہتر ہے۔‘‘ بدوؤں کی عجب منطق ہوتی تھی۔ لوٹ مار اور قتل و غارت کی کاروائیوں پر فخر کرتے تھے۔ یہ لوٹ مار، چوری اور قتل اس لئے کرتے تھے کہ ان کا خیال تھا کہ حاجی کا لوٹا ہوا مال رزق حلال ہے جو اللہ تعالیٰ نے بدوں کے لیے بھیجا ہے اور یہ ان کا حق ہے۔‘‘ اس طرح حج کے موسم میں جب حجاج بعض مقامات سے گزرتے تو بدو ان سے راہداری وصول کرتے اور کہتے ’’ یہ امن ٹیکس ہے۔‘‘ ان کے اس مطالبے سے انکار کی جرات کسی کو نہ تھی۔ یہ صورت حال ملک عبدالعزیز کے الاحساء اور حجاز میں داخلے سے پہلے تھی شاہ عبدالعزیز نے نجد، الاحساء اور حجاز میں جو بے مثال امن و امان قائم کیا اس کی دو وجوہات تھیں۔ 1۔ اسلامی قوانین کو ان کی اصل روح کے ساتھ نافذ کرنا 2۔ شریعت کی تنفیذ کے لیے اداروں کو مضبوط کرنا۔
Flag Counter