پر گفتگو کرتے۔بعض اوقات مولانا غزنوی ان کے ہاں تشریف لے جاتے۔ حضرت الامام عبدالجبار غزنوی کے اہلِ علم و فضل شاگردوں میں سے دو حضرات کی راقم الحروف نے زیارت ہی نہیں کی،بلکہ ان سے ملاقات اور صحبت بھی رہی اور ان کی مجالس کی برکات سے استفادہ بھی کیا ہے۔ ان میں سے ایک بزرگ عالمِ دین مولانا عبدالمجید ہزاروی ہیں،جنھوں نے برسوں پیشتر،وفات سے چند ہفتے قبل ہمارے غریب خانے پر کئی روز تک قیام کیا۔بڑھاپے کی وجہ سے ان کی کمر دہری ہو چکی تھی،لیکن پھر بھی ان کے مواعظ جاری تھے۔میرے والد ان کے اٹھنے بیٹھنے،کھانے پینے کا خصوصی خیال رکھتے۔وہ کئی روز مرکزی جامع مسجد اہلِ حدیث امین پور بازار اور مسجد مبارک منٹگمری بازار میں نمازِ فجر کے بعد درسِ قرآن حکیم دیتے۔دورانِ درس اور دورانِ نماز میں ان کی آنکھیں اشکبار ہوتیں۔احوالِ قبر و قیامت بیان کرتے ہوئے ان پر گہری رقت طاری رہتی۔ دوسرے بزرگ مولانا عبدالکریم گرنتھی ہیں،جن کا تذکرہ ہمارے فاضل دوست مولانا محمد اسحاق بھٹی مرحوم نے اپنی تصنیف ’’بزمِ ارجمنداں ‘‘ میں بھی کیا ہے۔مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کی سالانہ کانفرنس منعقدہ اپریل 1957ء دھوبی گھاٹ فیصل آباد کے موقع پر وہ تشریف لائے تھے۔کانفرنس کے ایام اور بعد ازاں دو تین روز انھوں نے ہمارے گھر پر گزارے۔موثر پیرائے میں تقریر و وعظ کرتے،وہ پنجابی کے شاعر بھی تھے۔اپنے استاذِ گرامی منزلت حضرت الامام عبدالجبار غزنوی کی وفات پر انھوں نے اپنے نیک جذبات و عقیدت کا اظہار ایک لمبی نظم میں کیا ہے۔مولانا عبیداﷲ احرار دوست و احباب کی محفلوں میں اس نظم کے اشعار ترنم سے سنایا کرتے تھے۔ہم یہ اشعار سننے کے لیے اکثر فرمایش کرتے رہتے تھے۔چند اشعار |