حافظ صاحب اپنی شیریں بیانی کے دریا بہا رہے تھے اور ان کی آواز دھوبی گھاٹ کی ارد گرد بلڈنگوں سے ٹکرا کر دور بیٹھے سامعین تک پہنچ رہی تھی،کسی جانب سے یہ نہیں کہا گیا کہ ہمیں آواز نہیں آ رہی۔ایسے ہی سمجھا جا رہا تھا کہ حافظ صاحب لاؤڈ سپیکر ہی پر خطاب فرما رہے ہیں۔یہ ان کی کرامت نہیں تو اور کیا ہے؟ آج کے قحط الرجال کے دور میں ایسے صالح،درد مند اور خلوص بھرے خطبا ناپید ہیں۔میر تقی میر نے کہا تھا ع پیدا کہاں ہیں ایسے پراگندہ طبع لوگ افسوس تم کو میر سے صحبت نہیں رہی کیا کیا روح پرور اور ایمان افروز واقعات دل و دماغ میں موجزن ہیں۔یہ انہی دنوں کی بات ہے کہ پتوکی کے قریب ایک چھوٹے اسٹیشن سے اتر کر چند فرلانگ کی مسافت پر ایک گاؤں میں مولوی اسماعیل شہید مناظرے کے لیے للکارے مار رہے تھے،وہاں سے کچھ احباب فیصل آباد آئے،کیوں کہ یہاں بھی ایک تبلیغی پروگرام میں شرکت کے لیے حافظ محمد اسماعیل،حافظ عبدالقادر،حافظ محمد ابراہیم کمیرپوری اور شیخ الحدیث مولانا محمد صدیق سرگودھوی تشریف فرما تھے،مگر یہ پروگرام منسوخ کر دیا گیا اور یہ حضرات اس گاؤں روانہ ہو گئے،میرے والد اور میں بھی ہمراہ تھے۔ جب یہ اکابر گاؤں کے نواح میں پہنچے تو مولوی اسماعیل شیعہ مناظر نو دو گیارہ ہو گئے۔پتا ہی نہ چلا کہ وہ کس طرف چھپتے چھپاتے گاؤں چھوڑ گئے ہیں۔رات چوک میں جلسہ ہوا۔ان حضرات کی تقریروں اور مواعظِ حسنہ سے گرد و پیش سے کئی دیہات سے آئے ہوئے بھاری تعداد میں لوگ خوب اثر لے کر گئے۔صبح ناشتے کے بعد جب ہم واپسی کے لیے اسی ریلوے اسٹیشن پر آئے تو 9 بجے کی گاڑی نکل گئی تھی اور اب |