بازار فرما رہے تھے۔راقم کی ابتدائی تقریر ’’خدماتِ علمائے غزنویہ‘‘ کے زیرِ عنوان تھی،جس کے بعد خطیبِ ملت علامہ احسان الٰہی ظہیر نے اسی عنوان کو آگے بڑھاتے ہوئے برصغیر پاک و ہند میں علمائے اہلِ حدیث کے تابناک ماضی،دینی و ملی اور سیاسی خدمات پر سیرحاصل خطاب کیا۔آخر میں خطیبِ پاکستان مولانا شیخوپوری نے تین گھنٹے تک مسلک اہلِ حدیث کی حقانیت و صداقت پر انتہائی شگفتہ و اعلیٰ اور پرمغز تقریر کی۔اس عظیم الشان جلسے کی کچھ ایسی تاثیر تھی کہ ایک عرصے تک شہر بھر میں چرچا رہا۔حقیقت تو یہ ہے کہ مسلکِ اہلِ حدیث کی بس دھاک بیٹھ گئی۔ بلا امتیاز ملک کے بلند پایہ مقررین اور خطبائے کرام مولانا شیخوپوری کی خطابت اور نکتہ آفرینی کے معترف تھے۔اوائل اپریل 1963ء کو دھوبی گھاٹ کے وسیع میدان میں حضرت مولانا سید محمد داود غزنوی کی صدارت میں شبان اہلِ حدیث کی سہ روزہ سالانہ کانفرنس منعقد ہوئی تھی،جس میں معروف دیوبندی عالمِ دین مولانا سید عنایت اﷲ شاہ بخاری بھی مدعو تھے۔مولانا شیخوپوری کی تقریرِ دل پذیر کے بعد شاہ صاحب نے اپنی تقریر میں کئی دفعہ مولانا شیخوپوری کے بیان و کلام کی تحسین و توصیف کی۔ایک مشترکہ جلسے میں بریلوی مقرر سید افتخار الحسن شاہ اور دیوبندی عالم مولانا ضیاء القاسمی نے ان کی تقریر سے متاثر ہو کر بے حد داد دی اور تعریف کی۔ جماعت کے نامور مناظر و مقرر مولانا احمد دین گکھڑوی تقسیمِ ملک کے بعد آٹھ دس سال تک فیصل آباد میں رہے۔مختلف اوقات میں جامع اہلِ حدیث امین پور بازار،جامع مسجد مبارک منٹگمری بازار،جامع مسجد الفردوس گلبرگ سی اور جامع اہلِ حدیث مومن آباد میں خطابت کی ذمے داریاں ادا کرتے رہے۔مولانا شیخوپوری کی جب بھی شہر کے کسی مقام و محلے میں تقریر کا پروگرام ہوتا،مولانا گکھڑوی |