چاہیے تھی، وہ کیسی بھی ہوا کیوں نہ ہو۔میں قلق واضطراب میں مبتلا ہو گیا، سمندر میں اندھیرا تھا اور میرے ساتھی مجھ سے بہت دور تھے۔مجھے اس موقع کی خطرناکی کا احساس ہونا شروع ہو گیا۔میں مرجاؤں گا۔میں نے سسکیاں لینا ہچکیاں بھرنا۔چلاّنا۔پھڑ پھڑانا شروع کر دیا اور نمکین و کھارے پانی سے مجھے اُچھو لگنے لگے۔اب میری آنکھوں کے سامنے میری زندگی کا ٹیپ چلنا شروع ہو گیا، پہلی ہی ہچکی کے ساتھ مجھے پتا چل گیا کہ میں کتنا ضعیف اور کمزور ہوں۔! نمکین پانی کے چند قطروں کو اللہ تعالیٰ نے مجھ پر مسلط کر دیا تھا۔تاکہ مجھے دکھلا دے کہ وہ کتنا قوت و جبروت والا قادر و جبار ہے۔اب میں یقین کر بیٹھا تھا کہ اللہ کے سوا میرا کوئی ملجا و ماویٰ نہیں۔میں نے بڑی تیزی سے حرکت کرنا اور ہاتھ پاؤں مارنا شروع کیا تاکہ پانی سے باہر نکل سکوں۔لیکن میں تو بہت گہرائی میں تھا۔اب میرے سامنے مشکل یہ نہیں تھی کہ میں مر جاؤں گا۔بلکہ اصل مشکل یہ تھی کہ میں اپنے رب کے سامنے کیا منہ لے کر جاؤں گا؟ جب اس نے مجھ سے میرے اعمال اور کردار کے بارے میں پوچھا تو میں کیا جواب دوں گا؟ سب سے پہلے جس چیز کا مجھ سے حساب مانگا جائے گا وہ نماز ہے اور اسے میں نے ضائع کیا ہوا ہے۔میں نے شہادتِ توحید و رسالت کو یاد کیا اور چاہا کہ میرا خاتمہ اس کلمۂ شہادت پر ہو جائے۔میں نے جب ’’اَشْھَدُ‘‘ کہا تو میرے گلے میں کچھ پھنس گیا۔کوئی پوشیدہ طاقت اور مخفی ہاتھ تھا جو میری گردن اور گلا دبا رہا تھا تاکہ مجھے یہ کلمہ کہنے سے باز رکھے۔میں نے پوری ہمت سے کوشش کی۔لیکن میری زبان نے ’’اَشْھَ۔اَشْھَ۔‘‘ سے آگے میرا ساتھ نہ دیا۔ |