میں بیٹھ کر اس کی حالت کے بارے میں سوچنے لگا۔ مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ ارشاد یاد آگیا، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((اِنَّ مِنَ النَّاسِ نَاساً مَفَاتِیْحَ لِلْخَیْرِ وَمَغَالِیْقَ لِلْشَرِّ، وَاِنَّ مِنَ النَّاسِ نَاساً مَفَاتِیْحَ لِلشَّرِّ وَ مَغَالِیْقَ لِلْخَیْرِ، فَطُوْبٰی لِمَنْ جَعَلَ اللّٰہُ مَفَاتِیْحَ الْخَیْرِ عَلَیٰ یَدَیْہِ وَوَیْلٌ لِّمَنْ جَعَلَ اللّٰہُ مَفَاتِیْحَ الشَّرِّ عَلٰی یَدَیْہِ))(صحیح الجامع:۲۲۲۳) ’’لوگوں میں سے بعض خیر و بھلائی کا دروازہ کھولنے کی چابیاں اور برائی کی راہ روکنے والے ہوتے ہیں اور بعض دوسرے لوگ برائی کا دروازہ کھولنے کی چابیاں اور خیر و بھلائی کی راہ روکنے والے ہوتے ہیں۔بشارت و خوشخبری ہے ان لوگوں کے لیے جن کے ہاتھوں کو اللہ خیر و بھلائی کے دروازے کھولنے کی چابیاں بنا دے اور ہلاکت و بربادی ہے ان لو گوں کے لیے جن کے ہاتھوں کو اللہ برائی کی راہیں کھولنے کا ذریعہ بنا دے۔‘‘ میرا خیال ہے کہ وہ ایسے ہی لوگوں میں سے ایک تھا۔میں نے اسے بہت ٹوکا اور بہت منع کیا تھا۔اسے کہا تھا کہ تم دوسرے لوگوں کے گناہ کیسے اٹھاؤ گے؟ تم گناہ کی چابی کیوں بنتے ہو؟ قیامت کے دن تم دوسرے لوگوں کے گناہوں کا بوجھ کیسے اٹھاؤ گے؟۔لیکن وہ میری کسی بھی بات کا کوئی اثر نہیں لیتا تھا۔وہ سمجھتا تھا کہ وہ نوجوان ہے، وہ تو صرف کھیل تماشا کرنا اور رنگ رلیاں منانا چاہتا ہے۔اور یہ سارے امور محض دل لگی اور وقت گزاری کے لیے ہیں۔ |