جب میرے صحابہ چلے جائیں گے تو میری امت پر وہ وقت آجائے گا جس کا وعدہ کیا گیا ہے۔اور یہ دین اس وقت تک باقی تمام ادیان پر غالب رہے گا جب تک تم میں ایسے لوگ موجود رہیں جنہوں نے مجھے دیکھا ہے ۔‘‘[1] ائمہ اہل بیت رحمہم اللہ کی یہی شان تھی اوریہ ان کا عالم تھا۔ وہ دوسرے لوگوں کو اصحاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر عمل کرنے کی ترغیب دیا کرتے تھے۔ یہ حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما ہیں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے صلح کرتے وقت ان کے ساتھ یہ شرط لگاتے ہیں کہ وہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی سیرت پر گامزن رہیں گے۔ آپ فرماتے ہیں : ’’ بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم.... یہ وہ صلح نامہ ہے جو حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما اور معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہما کے مابین طے پایا.... اس بات پر صلح کی جارہی ہے کہ مسلمانوں کی ولایت ان کے سپرد کی جائے گی؛ اس شرط کے ساتھ کہ وہ لوگوں کے مابین کتاب اللہ ؛ سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات شیخین رضی اللہ عنہما کی سیرت کے مطابق عمل پیرا رہیں گے۔‘‘ .... اور ایک روایت میں صالحین کے الفاظ ہیں ۔‘‘ اور علی بن ابو حمزہ سے روایت ہے فرماتے ہیں : ’’میں حضرت ابو عبداللہ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا تو ابو بصیر نے آپ سے کہا: میں آپ پر قربان جاؤں ! کیا میں ماہ رمضان میں ایک رات میں ایک قرآن پڑھ سکتا ہوں ؟ تو آپ نے فرمایا: ’’اصحاب محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں سے کوئی ایک قرآن مجید ایک ماہ یا اس سے کم عرصہ میں پڑھا کرتا تھا۔‘‘ [2] ان کے علاوہ دیگر بھی بہت ساری روایات ہیں جن میں اصحاب کرام کی اتباع کی ترغیب ائمہ اہل بیت سے منقول ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بھی فرمایا کرتے تھے: ’’تم میں سے کوئی ایک مجھے میرے کسی صحابی کے متعلق کوئی شکایت نہ کرے۔ مجھے یہ بات پسند ہے کہ جب میں تم لوگوں کے پاس آؤں تو میرا سینہ بالکل صاف ہو۔‘‘ [3] |
Book Name | دفاع صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ اجمعین |
Writer | قسم الدراسات والبحوث جمعیۃ آل واصحاب |
Publisher | دار المعرفہ ،پاکستان |
Publish Year | |
Translator | الشیخ شفیق الرحمٰن الدراوی |
Volume | |
Number of Pages | 406 |
Introduction |