رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی بدعت ایجاد نہیں کی۔ کیونکہ اس حدیث کے راوی خود حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں ۔یہ ان اہل شام کی روایات میں سے نہیں ہے جو آپ کے خلاف خروج کو جائز سمجھتے تھے۔ جیساکہ آپ نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے۔ یہ بات خود امامیہ کی کتابوں میں موجود ہے چنانچہ حضرت جعفر صادق اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ: ’’ ایک دن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے جنگی کارکنوں سے کہا: ’’ہم ان لوگوں سے اس لیے نہیں لڑتے کہ وہ کافر ہوگئے ہیں اور نہ ہی اس بات پر لڑتے ہیں کہ وہ ہمیں کافر کہتے ہیں لیکن لڑائی اس بات پر ہے کہ ہمارا خیال یہ ہے کہ ہم حق پر ہیں اور ان کا خیال یہ ہے کہ وہ حق پر ہیں ۔‘‘ [1] حضرت امام باقر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے ساتھ لڑنے والوں میں سے کسی ایک کو بھی شرک یا نفاق کی طرف منسوب نہیں کرتے تھے۔لیکن آپ یہ فرمایا کرتے تھے:’’ یہ ہمارے بھائی ہیں جنہوں نے ہمارے خلاف بغاوت کی ہے۔‘‘ [2] مروان بن حکم سے روایت ہے، وہ کہتا ہے: ’’جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بصرہ میں ہمیں شکست دیدی تو لوگوں کے اموال انھیں واپس کر دیے۔ جس نے بھی کسی چیز کاثبوت پیش کردیا وہ اسے مل گئی اور جس کے پاس ثبوت نہیں تھا اس سے قسم لی گئی۔ تو کسی کہنے والے نے آپ سے کہا: اے امیر المؤمنین! یہ مال غنیمت اور قیدی ہمارے مابین تقسیم کر دیجئے۔ جب لوگوں کا اصرار اس بات پر بہت زیادہ بڑھ گیا تو آپ نے فرمایا:’’ تم میں سے کون ہے جو ام المؤمنین کو اپنے حصہ میں لے گا؟ تو اس پر لوگ خاموش ہوگئے۔‘‘ [3] نیز آپ نے یہ بھی فرمایا: |
Book Name | دفاع صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ اجمعین |
Writer | قسم الدراسات والبحوث جمعیۃ آل واصحاب |
Publisher | دار المعرفہ ،پاکستان |
Publish Year | |
Translator | الشیخ شفیق الرحمٰن الدراوی |
Volume | |
Number of Pages | 406 |
Introduction |