فرمان الٰہی میں ہے: ﴿ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ﴾ ’’یہی وصف ان کا تو رات میں ہے۔‘‘ اور پھر فرمایا: ﴿ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ ﴾ ’’اور انجیل میں ان کا وصف اس کھیتی کے مثل ہے جس نے اپنی کونپلیں نکالیں ۔‘‘ ﴿ فَآزَرَهُ ﴾ ’’پھر اسے قوی کر دیا۔‘‘ یعنی پھر وہ مضبوط اور لمبی ہوگئیں ۔ ﴿ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ ﴾ ’’پھر اپنے تنا پر کھڑی ہوگئی کسانوں کو خوش کرنے لگی۔‘‘یہی حال اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی ہے۔ انہوں نے آپ کی مدد و نصرت کی آپ کی تائیدمیں ہمہ تن دوش مصروف ہوئے اور ان کی مثال اسی تنے کی ہے تاکہ ﴿ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ﴾ ’’ان کی وجہ سے کفار کو غصہ دلائے۔‘‘[1] علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’جمہور علمائے اہل سنت کے نزدیک یہ وصف تمام صحابہ کا ہے ۔‘‘[2] حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’لوگوں کی تین منازل ہیں :دو منزلیں گزر چکی ہیں اور ایک باقی ہے۔ پس تمہاری سب سے بڑی بہتری یہ ہوگی کہ تم اس منزل پر رہو۔پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: ﴿ لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانًا﴾’’وہ مال وطن چھوڑنے والے مفلسوں کے لیے بھی ہے جو اپنے گھروں اور مالوں سے نکالے گئے اللہ کا فضل اس کی رضا مندی چاہتے ہیں ۔‘‘ یہ منزل مہاجرین کی ہے۔ یہ منزل گزرچکی ہے۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: ﴿ وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ﴾ ’’جنہوں نے ان سے پہلے (مدینہ میں ) گھر اور ایمان حاصل کر رکھا ہے جو ان کے پاس وطن چھوڑ کر آتا ہے اس سے محبت کرتے ہیں اور اپنے سینوں میں اس کی نسبت کوئی خلش نہیں پاتے جو مہاجرین کو دیا جائے اور وہ اپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ ان پر فاقہ ہو۔‘‘ یہ منزل انصار کی ہے اور یہ بھی گزر چکی ہے۔‘‘ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی: ﴿ وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا |
Book Name | دفاع صحابہ و اہل بیت رضوان اللہ اجمعین |
Writer | قسم الدراسات والبحوث جمعیۃ آل واصحاب |
Publisher | دار المعرفہ ،پاکستان |
Publish Year | |
Translator | الشیخ شفیق الرحمٰن الدراوی |
Volume | |
Number of Pages | 406 |
Introduction |