Maktaba Wahhabi

210 - 406
تنقید نگار کہتا ہے:.... ان میں سے وہ روایات بھی ہیں جو انس سے حمید نے روایت کی ہیں ۔ یہ روایات نسائی اور احمد نے نقل کی ہیں ۔ حمید:سے مراد حمید بن ابو حمید الطویل ہے اور اس کے متعلق نصوص موجود ہیں کہ یہ مدلس تھا اور انس سے اس کی روایات میں تدلیس پائی جاتی ہے اور یہ حدیث بھی ان ہی احادیث میں سے ایک ہے اور اس نے اپنی بات کو درست ثابت کرنے کے لیے تہذیب التہذیب کا حوالہ دیا ہے۔ جب ہم تہذیب التہذیب پر نظر ڈالتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ علمائے کرام کی اس بارے میں درج ذیل رائے ہے: ابن خراش کہتے ہیں : اس نے حضرت انس کی اکثر احادیث ثابت سے سنی ہوئی ہیں اورمومل نے حماد سے روایت کیا ہے کہ حمید ثابت سے جو انس کی احادیث روایت کرتا ہے ان میں سے اکثر احادیث اس نے سنی ہوئی ہیں ۔ ابو عبیدہ الحداد نے شعبہ سے روایت کیا ہے کہ حمید نے انس سے صرف چوبیس احادیث سماعت کی ہیں ۔ جبکہ باقی اس نے ثابت سے سنی ہیں اور ثابت نے انہیں ثبت کہا ہے۔ ابن عدی کہتے ہیں : اس کی بہت زیادہ احادیث درست ہیں اور ائمہ حدیث نے اس سے احادیث روایت کی ہیں ۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ اس نے انس سے صرف چند ایک (چوبیس) احادیث سنی ہیں اور باقی احادیث ثابت کے ذریعہ سے سنی ہیں ۔ تو اس باب میں اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ حضرت انس سے مروی اس کی احادیث میں تدلیس پائی جاتی ہے حالانکہ وہ روایات ثابت سے سنی ہوئی ہیں ۔حافظ ابو سعید العلائی کہتے ہیں :یہاں پراس اعتبارسے حمید کی روایات مدلس ہوں گی۔ لیکن ان کے مابین واسطہ صاف اور واضح ہو چکا ہے اور واسطہ والا راوی ثقہ ہے۔[1] پس درایں صورت اگر حدیث مدلس بھی ہو تب بھی واسطہ واضح ہو گیا ہے۔ واسطہ کا علم ہو گیا ہے۔ لہٰذا اب اس کی سند پر طعن نہیں کیا جا سکتا۔ پھر تنقید نگار کہتا ہے: ان سابقہ اعتراضات کے ساتھ ساتھ احمد سے روایت کرنے والا راوی سفیان بن حسین ہے، جس کے بارے میں آپ کو علم ہو چکا ہے۔ سفیان بہت بڑا جھوٹا تھا۔ گویا کہ علماء نے یہ بات کہی ہی نہیں کہ وہ زہری کے علاوہ دیگر سے روایت کرنے میں ثقہ ہے۔ ان علماء میں سے ایک یحییٰ بن معین رحمہ اللہ بھی ہیں اور پھر اس کے بعد اس نے حضرت انس بن مالک رحمہ اللہ پر طعنہ زنی شروع کی ہے اوربڑی
Flag Counter