Maktaba Wahhabi

205 - 406
بعض احادیث بھول گئی تھیں ۔ کیونکہ آپ کی عمر سو سال سے تجاوز کر گئی تھی۔ یہ تمام باتیں علم الرجال کی کتابوں میں موجود ہیں ۔ پھر یہ کہ کسی ایک سند کی وجہ سے روایت کو ساقط کر دینا یہ اچھوتا معاملہ ہے۔ اس لیے کہ یہ متن دوسری صحیح اسناد سے بھی روایت کیا گیا ہے۔ یہاں پر بطور دلیل و جواب اتنی بات ہی کافی ہے۔ اس سند کی وجہ سے روایت کی صحت پختہ ہو گئی ہے۔ اس لیے کہ ابو اسحق نے حدیث کے معاملے میں کبھی جھوٹ نہیں بولا، ہاں ، زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس میں تدلیس واقع ہوئی ہے۔ ۵۔ روایات ابن مسعود رضی اللّٰہ عنہ : النسائی: اخبرنا اسحق بن ابراہیم، و ہناد بن السری، عن حسین بن علی عن زائدۃ، عن عاصم عن زر عن عبداللّٰہ۔ اس سند میں راوی عاصم بن ابی النجود الکوفی ہے جو کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتا ہے۔ اس کا حافظہ خراب تھا۔ اگر وہ اس حدیث کو روایت کرنے میں منفرد ہوتا تو اس کی متابعت نہ کی جاتی اور یہ حدیث ساقط الاعتبار ہوتی۔ لیکن وہ روایت کرنے میں منفرد نہیں ، اس لیے کہ اس حدیث کا متن دوسری صحیح اسناد سے بھی مروی ہے۔ و للّٰہ الحمد۔ یہ اعتبار بھی سند کو ساقط کرنے والا نہیں ۔ بلکہ اس کی تائید کرنے والا ہے۔ اس لیے کہ عاصم جھوٹا نہ تھا۔ بلکہ اس پر الزام یہ ہے کہ اس کا حافظہ خراب تھا۔ [1] ۶۔حدیث بریدۃ رضی اللّٰہ عنہ : الامام احمد: عبداللّٰہ، ابیہ، عن عبدالصمد بن عبدالوارث عن زائدۃ عن عبدالملک، عن ابن بریدۃ عن ابیہ.... تنقید نگار کہتا ہے:.... نیز یہ کہ حضرت بریدہ اسلمی کی حدیث جسے امام احمد نے اپنی سند سے روایت کیا ہے، وہ ابن بریدہ سے اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں ۔ تو ابن بریدہ خواہ وہ عبداللہ ہو یا سلیمان اس سے صرف نظر کرتے ہوئے کہ ان کی بابت کیا کچھ کہا گیا ہے.... الخ۔ عبداللہ بن بریدہ اور سلیمان بن بریدہ دونوں بھائی ثقہ ہیں اور دونوں اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں ۔ تو پھر راوی کے عدم تعین میں کوئی حرج والی بات نہیں ۔ پھر وہ اس سند کے بارے میں یہ بھی کہتا ہے کہ اس میں عبدالملک بن عمیر ہے، اس کے بارے میں آپ کو معلوم ہو چکا ہے .... الخ۔ میں کہتا ہوں : ہاں ، اس کی بابت معلوم ہو چکا ہے، اور یہ سند صحیح ہے، اس پر کوئی غبار نہیں ہے۔ اس کا اضافہ بھی سابقہ صحیح اسانید کی فہرست میں کیا جاتا ہے۔
Flag Counter