Maktaba Wahhabi

196 - 406
۱۔حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق مشہور ہے کہ آپ کی سو بیویاں تھیں اور تین سو باندیاں بھی تھیں اور آپ کی اولاد بہت زیادہ تھی تو پھر باقی کو چھوڑ کر صرف حضرت سلیمان کیسے وارث ہو سکتے تھے؟ اس صورت میں بطور خاص حضرت سلیمان علیہ السلام کا ہی کیوں ذکر کیا گیا؟ ۲۔ اگر یہ معاملہ مالی وراثت کا ہوتا، تو قرآن میں اس کے ذکر کرنے کا کوئی فائدہ نہ تھا۔ اس لیے کہ یہ عام سی بات ہے کہ بیٹا باپ کا وارث بنتا ہے۔ اس حقیقت کا اعتراف شیعہ مفسرین کو بھی رہا ہے۔ ایک بڑا معاصر شیعہ عالم محمد جواد المغنیۃ اپنی تفسیر ’’التفسیر المبین‘‘ میں اس آیت کی تفسیر میں لکھتا ہے کہ: ’’ اس کی تفسیر [یعنی اس سے مراد ]بادشاہی اور نبوت ہے۔‘‘[1] ٭ پھر یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ شیعہ مذہب میں عورت کو زمین یا عقارات وغیرہ سے وراثت نہیں ملتی۔ کلینی نے اس بارے میں علیحدہ باب قائم کیا ہے، جس کا عنوان ہے: ....اِنَّ النِّسَائَ لَا یَرِثْنَ مِنَ الْعَقَارِ شَیْئًا.... اس باب میں ابو جعفر کا قول نقل کیا ہے کہ ’’خواتین کو زمین اور املاک میں کچھ بھی وراثت نہیں ملے گی۔‘‘[سبق تخریجہ] ٭اور ایسے میسر [شیعہ عالم ]سے ان کا یہ قول بھی روایت کیا گیا ہے: [وہ کہتا ہے] ’’میں نے ابوعبداللہ علیہ السلام سے پوچھا کہ عورتوں کو میراث میں کیا ملے گا؟ تو فرمایا: ’’ان کے لیے اینٹ، گارے، لکڑ وغیرہ کی قیمت ہے، انہیں زمین اور املاک میں سے کچھ بھی وراثت میں نہیں ملے گا۔‘‘[2] ٭محمد بن مسلم نے ابو جعفر سے روایت کیا ہے ارشاد فرمایا کہ: ’’عورتوں کو زمین اور املاک میں سے وراثت نہیں ملے گی۔‘‘ اور عبدالملک بن اعین نے روایت کیا ہے کہ امام صاحب نے فرمایا: ’’عورت کا گھر اور املاک کی وراثت میں حصہ نہیں ۔‘‘[3] ٭ اگر فدک میراث تھی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام بیویوں بشمول حضرت عائشہ بنت ابی بکر اور ان کے علاوہ زینب اور ان کے علاوہ ام کلثوم دختران النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی اس میں حصہ تھا، لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نہ تو اپنی بیٹی یعنی زوجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو کچھ دیا اور نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی دوسری بیوی کو کچھ ملا۔ اس سلسلہ میں آپ کی دلیل وہی مذکورہ بالا حدیث تھی۔ تو پھر ان لوگوں کا ذکر قضیہ فدک میں ایک فریق کی حیثیت سے کیوں نہیں کیا جاتا؟
Flag Counter