Maktaba Wahhabi

121 - 406
تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ حوض سے ہر مرتد کو روک لیا جائے۔ بھلے وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پانے والا کوئی اعرابی ہوجو بعد میں مرتد ہوگیا تھا یا پھر آپ کے بعد کے زمانے کا مرتد ہونے والا کوئی شخص ہو ۔اور اس میں خواہشات نفس کے پجاری اہل بدعت بھی شریک ہوں گے۔ علامہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ وہ تمام لوگ جنہوں نے دین میں ایسی بدعات ایجاد کرلی ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے اجازت نہیں دی اور نہ ہی اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوتے ہیں ، وہ حوض سے بھگائے جائیں گے، دور ہٹادیے جائیں گے۔ واللہ اعلم۔ ان سب سے زیادہ جن لوگوں کو دور ہٹایا جائے گاوہ مسلمانوں کی اجتماعیت کی مخالفت کرنے والے اور ان کی راہ ترک کرنے والے ہوں گے جیسے کہ خوارج، اور ان کے مختلف فرقے۔.... آگے چل کر فرمایا: ’’یہ تمام وہ لوگ ہیں جو بدل جائیں گے اور یہی حال ان ظالموں کا ہوگاجو ظلم میں حد سے زیادہ بڑھنے والے ہیں اور ظلم سے مراد حق کو مٹانا اور اہل حق کو قتل کرنا اور انھیں ذلیل کرنا ہے۔اوروہ اعلانیہ گناہ کرنے والے جو کہ گناہوں کو بہت معمولی اور حقیر سمجھتے ہیں اور تمام خواہشات کے پجاری ٹیڑھے میڑھے چلنے والے اہل بدعت، ان تمام کے بارے میں یہ خوف ہے کہ اس حدیث سے مراد یہی لوگ ہیں ۔‘‘ [1] جب یہ بات طے ہو گئی تو اب ان تمام بہتانوں سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی برأت ثابت ہوگئی جو ان کے دشمن ان پر چسپاں کرتے ہیں ۔ یعنی حوض سے دور کئے جانے کا سبب دین سے مرتد ہونا بھی ہوسکتا ہے اور دین میں بدعات ایجاد کرنا بھی۔ صحابہ ان تمام باتوں سے بہت زیادہ دور ہیں ۔بلکہ یہ حضرات ان مرتدین کے سب سے بڑے دشمن تھے جنہوں نے ان کے خلاف جہاد کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد انتہائی سخت نازک حالات میں ان کے خلاف جنگیں لڑیں ۔ جیسا کہ امام طبری نے صحیح سند کے ساتھ حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ: ’’عرب عمومی طور پر یا بعض قبائل کے خاص خاص لوگ مرتد ہوگئے تھے، نفاق پھیل گیا تھا اور یہود و نصاری اپنی سازشوں کے ذریعہ ان میں ایسے داخل ہوگئے تھے جیسے بارش والی رات میں بکری [ریوڑ میں گھس جاتی ہے] ۔اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے تو مسلمان قلت میں تھے اور ان کے دشمن بہت بڑی تعداد میں تھے۔‘‘ [2]
Flag Counter