Maktaba Wahhabi

106 - 406
اہل بیت کو آگے کرکے اپنے اصحاب کو تلواروں اور نیزوں سے بچاتے ۔‘‘[1] لیکن اس کے بعد بھی اللہ تعالیٰ کے لیے یہ کوئی گراں نہیں ہے کہ انہیں ائمہ اورزمین کے وارث بنائے اور انہیں خلافت ارضی سے نوازدے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ﴾ [النور: ۵۵] ’’اللہ نے ان لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کیے کہ انھیں ضرور ملک کی حکومت عطا کرے گا جیسا کہ ان سے پہلوں کو عطا کی تھی اور ان کے لیے جس دین کو پسند کیا ہے اسے ضرور مستحکم کر دے گا اور ان کے خوف کو امن سے بدل دے گا پس وہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے اور جو اس کے بعد ناشکری کرے تو وہی لوگ فاسق ہوں گے۔‘‘ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان آیات میں اہل ایمان کے ساتھ وعدہ کیا ہے کہ انہیں زمین میں خلافت، دینی استحکام، اور دشمنوں سے بہت بڑا امن و امان دے گا اور جس چیز کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے اس کا ہر حال میں پورا ہونا ضروری ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں فرماتے۔ چنانچہ یہی وہ سب کچھ تھا جو خلفائے راشدین کے عہد مسعود میں پیش آیا جو نزول قرآن کے وقت حاضر اور موجود تھے۔جیسا کہ بعض مفسرین نے ذکر کیا ہے۔ انہی بشارات میں سے وہ واقعہ بھی ہے جو خندق کے دن پیش آیا۔ جب مسلمان خندق کھود رہے تھے تو ایک بہت بڑی چٹان آ گئی جس کا توڑنا بہت مشکل ہوگیا۔ تونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور کدال اپنے دست مبارک میں لی اور اس سے آپ نے ایک ضرب لگائی جس سے ایک شعلہ نکلا گویا کہ اندھیری رات میں روشنی پھیل گئی ہو۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح کی بشارت دیتے ہوئے تکبیر کہی۔ مسلمانوں نے بھی اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا۔ پھر آپ نے ایک دوسری ضرب لگائی ۔ اس سے پھر ایک روشنی کا شعلہ نکلا۔گویا کہ بجلی کی چمک ہو۔ پھر آپ نے تیسری ضرب لگائی۔تب بھی گویا کہ بجلی کی چمک پیداہوئی۔
Flag Counter