ہوئے جب یہ آیت اتری (کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈراؤ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’اے قریش کی جماعت! اپنے نفسوں کو خرید لو، میں اللہ سے تمہیں کوئی کفایت نہیں کر سکوں گا، اے بنو عبد مناف! میں آپ کو اللہ سے کچھ فائدہ نہیں دے سکوں گا، اے عباس بن عبدالمطلب! میں آپ کو اللہ سے کچھ فائدہ نہ دے سکوں گا، اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی صفیہ! میں آپ کو اللہ سے کچھ فائدہ نہ دے سکوں گا، اے فاطمہ بنت محمد! مجھ سے میرے مال میں سے جو چاہتی ہے اس کا سوال کر لے، میں آپ کو (قیامت کے روز) اللہ سے کچھ کفایت نہیں کر سکوں گا‘‘۔
معلوم ہوا کہ حسب و نسب کی وجہ سے کامیابی نہیں بلکہ عقیدہ اور عمل صالح کی وجہ سے کامیابی ہے اور کوئی بڑا، چھوٹا، پیر، فقیر، رسول، پیغمبر، اپنے حسب و نسب والے کو نہیں بخشوا سکے گا اور نہ ہی کسی کے اختیار میں ان کی ہدایت ہے، سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ کی ہدایت کے لیے تمام کوششیں کیں، مگر نہ ہی اسے ہدایت سے بہرمند فرما سکے اور نہ ہی بخشوا سکیں گے، اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے چچا ابو طالب کی ہدایت کے لیے کوئی کسر نہ چھوڑی، مگر ہدایت نہ دے سکے اور بخشش کروانے کا وعدہ کیا، مگر اللہ تعالیٰ نے منع فرما دیا اور بخشش کی دعا کا اختیار بھی نہ دیا، حدیث مبارکہ کی عبارتیں ملاحظہ فرمائیں:
((عَنْ سَعِيْدِ بْنِ الْمُسَيّبِ عَنْ اَبِيْهِ قَالَ لَمّا حَضَرَتْ أبا طالِبٍ الوَفاةُ دَخَلَ عليه النبيُّ صلي اللّٰه عليه وسلم ، وعِنْدَهُ أبو جَهْلٍ وعَبْدُ اللّٰهِ بنُ أبِي أُمَيَّةَ، فَقالَ النبيُّ صلي اللّٰه عليه وسلم : أيْ عَمِّ، قُلْ: لا إلَهَ إلّا اللّٰهُ أُحاجُّ لكَ بها عِنْدَ اللَّهِ، فَقالَ أبو جَهْلٍ، وعَبْدُ اللّٰهِ بنُ أبِي أُمَيَّةَ: يا أبا طالِبٍ أتَرْغَبُ عن مِلَّةِ عبدِ المُطَّلِبِ، فَقالَ النبيُّ صلي اللّٰه عليه وسلم : لَأَسْتَغْفِرَنَّ لكَ ما لَمْ أُنْهَ عَنْكَ، فَنَزَلَتْ: {ما كانَ للنبيِّ والذينَ آمَنُوا أنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ ولو كانُوا أُولِي قُرْبى، مِن بَعْدِ ما تَبَيَّنَ لهمْ أنَّهُمْ أصْحابُ الجَحِيمِ})) [1]
|