Maktaba Wahhabi

438 - 503
روزِ قیامت تک اللہ تعالیٰ کی تکذیب کرنے والے ہر شخص کے خلاف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت رضوان کی، وہ تمہارے اشراف تھے جنہوں نے تم سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی۔ انہوں نے اپنی جانوں کو اللہ تعالیٰ کی جنت کے عوض اس کے ہاتھوں بیچ دیا اور یہ بیع بڑی نفع بخش تھی۔ مگر آج تم اجنبیت کے گھر میں ہو اور تم رب کائنات سے بیعت کر چکے ہو۔ تمہاری اس جگہ موجودگی اس کی نظروں میں ہے اور تم اس علاقہ میں صرف اس کی رضامندی کے حصول اور اس کے دین کو تقویت دینے کے لیے آئے ہو، لہٰذا خوش ہو جاؤ۔ دشمن کی تعداد جس قدر بھی زیادہ ہو گی ان کے لیے باعث ذلت و رسوائی ہو گی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ تمہارا پروردگار تمہیں تمہارے دشمن کے حوالے نہیں کرے گا، تم سچے دلوں کے ساتھ ان کا سامنا کرو، اللہ نے تمہیں اپنا وہ عذاب بنایا ہے جو مجرم لوگوں سے ٹل نہیں سکتا۔ تم اللہ تعالیٰ کی برکت اور اس کی مدد سے اپنے دشمنوں سے لڑو، اللہ اپنا عذاب مجرم قوم سے ٹالا نہیں کرتا۔[1] عقبہ بن نافع کا یہ عظیم خطبہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ انہوں نے اپنی جنگوں میں اس عظیم ترین ہتھیار پر اعتماد کیا جس میں مسلمانوں کی کامیابیوں کا راز ہے، اور وہ ہتھیار ہے: اللہ رب کائنات پر توکل اور اعتماد، اس کی عظمت و جلال کا استحضار اور اس کی نصرت و تائید کے ساتھ اپنے مومن دوستوں کی معیت، دشمن کے لشکر جتنے بھی بڑے ہوں اسے ان کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔ اہمیت صرف اس بات کی ہے کہ اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ یہ کارگر معنوی ہتھیار بدرجہ اتم لشکر میں موجود رہے۔ جب اس کی ضمانت حاصل کر لی جائے تو پھر دشمن کے لشکروں کے اجتماع کو خوش آمدید کہے گا تاکہ اللہ تعالیٰ کے اولیاء صالحین کے ہاتھوں انہیں جلد از جلد ہلاک کر دیا جائے اور ان کی جمعیت کو پارہ پارہ کر دیا جائے۔ عقبہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ساتھ بڑی گہری مشابہت رکھتے تھے، ان کی یہ حالت تھی کہ دشمن کا لشکر جس قدر بڑا ہوتا اور اس کے عناصر جس قدر زیادہ ہوتے وہ اتنے ہی زیادہ خوش ہوتے اور ان میں قوت اور عظمت کا شعور اتنا ہی گہرا ہوتا۔ عقبہ نے اس حوالے سے ان کی اقتداء کی اور انہیں قیادت و اقدام میں اپنے لیے نمونے کے طور پر اختیار کیا، ایسا اقدام جو تردد اور اکتاہٹ سے آشنا نہیں ہوتا، انہیں ایسا کرتے وقت اس امر کا بخوبی ادراک ہوتا تھا کہ اسلام کا سچا اور مخلص لشکر اللہ کا عذاب ہے جسے اس کے کافر دشمنوں پر مسلط کر دیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ کا عذاب مجرم لوگوں سے ٹلا نہیں کرتا۔ حضرت عقبہ کا یہ دائمی شعور کہ مسلمان مجاہدین اللہ تعالیٰ کی تلوار اور اس کے دشمنوں پر مسلط کردہ اس کا عذاب ہیں، انہیں اس مقام پر سے آیا تھا کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی نصرت پر بڑا اعتماد اور اس کے بارے میں حسن ظن حاصل ہو گیا تھا۔[2]
Flag Counter