ابو عبدالرحمن عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما بڑے عالم و عابد امام تھے، آپ صحابی ابن صحابی ہیں۔ ان کے باپ ان سے بہت زیادہ بڑے نہیں تھے، جہاں تک ہمیں علم ہے وہ اپنے باپ سے پہلے مشرف باسلام ہوئے تھے، کہا جاتا ہے کہ ان کا نام العاص تھا مگر جب وہ مسلمان ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ میں تبدیل کر دیا۔[1] عبداللہ نے اپنے باپ کے ورثہ سے بہت زیادہ سونا حاصل کیا، ان کا شمار بادشاہ صحابہ میں ہوتا ہے۔[2]
۳۔ عتبہ بن ابو سفیان کی ولایت:… عتبہ کی ولادت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ مبارک میں ہوئی، عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں طائف کا والی مقرر فرمایا، پھر جب عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی تو معاویہ رضی اللہ عنہ نے انہیں مصر کا والی متعین فرمایا۔ عتبہ فصیح اللسان خطیب تھے، کہا جاتا ہے کہ بنو امیہ میں ان سے بڑا کوئی خطیب نہیں ہوا، انہوں نے مصر پر اپنی ولایت کے دوران اہل مصر کو خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: اے اہل مصر! تمہاری زبانوں پر حق کی تعریف و ستائش کم ہی آتی ہے اور تم حق کا التزام بھی کم ہی کرتے ہو، تم باطل کی مذمت بہت کم کرتے ہو اور اس کا ارتکاب کرتے ہو۔ تم اس گدھے جیسے ہو جس کی پشت پر کتابوں کا بوجھ لدا ہو جن کا اٹھانا اس کے لیے مشکل ہو رہا ہو مگر ان کتابوں کا علم اسے فائدہ نہ پہنچا رہا ہو۔ اب میں تمہارا علاج صرف تلوار سے کروں گا مگر جب تک کوڑا کام دے گا تلوار سے کام نہیں لوں گا، اور میں پہلی چیز سے بھی تاخیر کروں گا اگر تم دوسری تک جانے کے لیے جلدی نہیں کرو گے۔
اگر تم اللہ تعالیٰ کے لازم کردہ ہمارے حقوق ادا کرو گے تو ہم تمہارے حوالے سے اپنے فرائض ادا کریں گے۔ آج کسی کو سزا نہیں ملے گی اور آج کے بعد کسی کو سرزنش نہیں کی جائے گی۔[3] دوسری روایت میں وارد ہے تم ہماری بات سنیں گے اور ہم تم لوگوں میں عدل کریں گے۔ اس پر مسجد کے کونے کونے سے سمعاً سمعاً ’’ہم سنیں، ہم سنیں گے‘‘ کی آوازیں آنے لگیں۔ جس کا جواب انہوں نے عدلاً عدلاً[4] ’’انصاف ہو گا انصاف ہو گا‘‘ کہہ کر دیا۔ انہوں نے اسکندریہ میں سرحد پر قیام کرنے کے بعد دار الامارہ قائم کیا۔[5]
عتبہ نے اپنی اولاد کے لیے ایک مؤدِّب کا تقرر کر رکھا تھا جو ان کی تعلیم و تربیت کا فریضہ سر انجام دیتا، اس کے لیے عبدالصمد بن عبدالاعلیٰ کا تقرر کیا گیا تھا۔[6] عتبہ نے انہیں اس حوالے سے راہنما اصول دیتے ہوئے فرمایا تھا: انہیں کتاب اللہ کی تعلیم دیں مگر اس کے لیے ان پر زبردستی نہ کریں ورنہ وہ اکتا جائیں گے اور ان سے لاتعلق بھی
|