Maktaba Wahhabi

323 - 503
مصر کے خراج پر عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی ولایت کے ایام میں والی متعین کیا گیا تھا، اس لیے کہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد جو لوگ مصر کے والی مقرر ہوئے وہ تھے: عتبہ بن ابوسفیان، عقبہ بن عامر اور مسلمہ بن خالد، یہ لوگ نماز اور خراج کے والی تھے۔ یہ روایت اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ مصر پر عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی ولایت کے دوران وہاں سے زیادہ خراج وصول کرنے کا اہتمام کیا کرتے تھے مگر اس اہتمام کا اس صورت میں ہی کوئی معنی بنتا ہے کہ جب مصر کا خراج معاویہ رضی اللہ عنہ تک پہنچایا جائے تاکہ وہ اس کے ساتھ مختلف قسم کے اخراجات پورے کر سکیں۔[1] مزید براں معاویہ رضی اللہ عنہ کسی ایک فرد کے لیے خراج مصر سے دست بردار ہونے والے نہیں تھے جبکہ انہیں بخوبی علم تھا کہ یہ ساری امت کا حق ہے اور یہ کہ وہ اس سے دست بردار ہونے کا استحقاق نہیں رکھتے۔ ابن تیمیہ رحمہ اللہ عطیہ بن قیس سے روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو خطبہ دیتے ہوئے یہ فرماتے سنا: تمہیں تمہارے عطیات ادا کرنے کے بعد بیت المال میں کچھ مال بچ رہا ہے جسے میں تم لوگوں میں تقسیم کرنا چاہتا ہوں۔ اگر آئندہ سال بھی کچھ مال بچ رہا تو میں اسے بھی تمہارے درمیان تقسیم کر دوں گا اور اگر کچھ نہ بچا تو پھر مجھ سے ناراض نہ ہونا، یہ میرا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا مال ہے جو اس نے تمہیں عطا کیا ہے۔[2] مزید براں یہ بات بھی یقینی ہے کہ اہل مصر اس بات کو تسلیم نہیں کر سکتے تھے کہ مصر رشوت کے طور پر عمرو ابن العاص رضی اللہ عنہ کو دے دیا جائے جیسا کہ ان کے معاندین کا خیال ہے۔ مثال کے طور پر مصر میں کچھ ایسے لوگ بھی موجود تھے جنہوں نے بھی عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کی طرح معاویہ رضی اللہ عنہ کی نصرت و حمایت کی تھی جیسا کہ معاویہ بن خدیج اور عثمانیہ سے ان کے دیگر اصحاب و رفقاء، یہ لوگ اس بات کو کسی بھی صورت میں قبول نہیں کر سکتے تھے کہ عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو ان پر امتیازی مقام و مرتبہ حاصل ہو۔ ہم قبل ازیں بتا چکے ہیں کہ اس معاویہ بن خدیج نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے بھانجے عبدالرحمن بن ام الحکم کو والی کے طور پر مصر میں داخل ہونے سے پہلے ہی اسے واپس لوٹا دیا تھا اور اپنے اوپر اس کی امارت کو مسترد کر دیا تھا اگرچہ اس نے اس کے لیے غیر مناسب انداز اختیار کیا تھا مگر معاویہ رضی اللہ عنہ اسے ناراض کرنے کی ہمت نہ کر سکے۔[3] ب:حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے لیے ’’دار ابجرد‘‘ کے خراج سے دست بردار ہونا: بعض مؤرخین کا دعویٰ ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ ، حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہما کے لیے ’’دار ابجرد‘‘ کے خراج سے دست بردار ہو گئے تھے اور یہ کہ اگر وہ معاویہ رضی اللہ عنہ کے لیے خلافت سے دست بردار ہو جائیں تو وہ اس کے عوض انہیں کوفہ کے بیت المال سے پانچ ہزار درہم ادا کریں گے، پھر حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے کوفہ کے بیت المال سے تو وہ رقم وصول کر لی مگر ’’دار ابجرد‘‘ کا خراج وصول کرنے سے قاصر رہے، اس لیے کہ اہل مصر نے انہیں اس سے روک دیا تھا، ان
Flag Counter