عرضِ ناشر
اسلامی تاریخ کا سب سے بڑا ماخذ قرآن حکیم ہے جس نے اپنے خاص مشن کے تحت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت تیار کی ، پھر اس جماعت کی صفات ذہنی رجحانات اور قلبی کوائف کو بیان کیا اور ان کی خصوصیات کو اُمت مسلمہ کے سامنے بطورِ اتباع اور حجت پیش کیا۔ چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ذہنی رجحانات، قلبی کوائف اور فکری ارتقاء کا تذکرہ کئی سو آیات میں بیان کیاجن سے اُن کی سیرت کے متعلق بہت سی چیزوں کا پتہ چلتا ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ انسانی کمالات کی دو قسمیں ہیں: ان میں سے ایک وہ کمالات ہیں جو نیچے سے اوپر آئیں، ان کمالات کو ارتقاء کہتے ہیں اور دوسرے کمالات وہ ہوتے ہیں جو اوپر سے نیچے آئیں ، ان کو عطا کہتے ہیں۔ اسے یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ کچھ کمالات کسبی ہیں جو محنت یا جدو جہد سے حاصل کیے جا تے ہیں ، اورکچھ کمالات وہ ہوتے ہیں جو وہبی ہوتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کی عطا سے ملتے ہیں، اس میں اپنی محنت کا کوئی دخل نہیں ہوتا جیسے نبوت اور رسالت۔ نبی اور رسول محنت سے نہیں بنتے بلکہ نبوت اور رسالت موہبت الٰہی ہے یعنی اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے نبوت اور رسالت عطا فرماتا ہے۔ اس طرح صحابیت بھی ارتقاء نہیں بلکہ عطا ہے، کسبی نہیں بلکہ وہبی ہے۔ کوئی شخص محنت سے اس مقام کو حاصل نہیں کر سکتا، نہ تو علم پر صحابیت ملتی ہے اور نہ عمل پر بلکہ یہ ایک عطاء الٰہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علم میں یہ بات پہلے طے شدہ تھی کہ فلاں فلاں صحابی ہو گا کیونکہ: ﴿اُوْلٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَہُمْ لِلتَّقْوٰی﴾ (الحجرات: ۳) اسی وجہ سے صحابہ کرام سے محبت رکھنے والے کو اللہ تعالیٰ نے ایک نمونہ کے طور پر پیش کیا: ﴿فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِہٖ فَقَدِ اہْتَدَوْا﴾ (البقرہ: ۱۳۷) اس لیے ان سے محبت بھی ان کے علم اور عمل کی وجہ سے نہیں کی جا سکتی بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی وجہ سے کی جا سکتی ہے۔ حسن بصری سے کسی شخص نے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تمام اُمت سے افضل ہیں؟ کیا انہوں نے ہم سے زیادہ نمازیں پڑھیں؟ کیا انہوں نے ہم سے زیادہ روزے رکھے تھے؟کیا انہوں نے ہم سے زیادہ حج کیے تھے؟ انہوں نے فرمایا: ہو سکتا ہے کہ تم لوگوں نے ان سے زیادہ نمازیں پڑھی ہوں۔ تم نے ان سے زیادہ روزے رکھے ہوں اور تم نے ان سے زیادہ حج کیے ہوں لیکن ان کی آنکھوں کے ذریعے نگاہ نبوت کی جو بجلی ان کے قلوب میں گئی وہ دنیا کے کسی شخص کو میسر نہیں ہو سکتی۔
مختصر یہ کہ قرآن نے انہیں رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ کے لقب سے نوازا ہے۔صحابہ کرام کی عظمت
|