Maktaba Wahhabi

249 - 413
ابن قطان سے نقل کی ہے۔ اس لیے یہ لفظ گو تضعیف کے لیے نہیں،مگر یہ راوی کی توثیق کے لیے بھی نہیں جیسا کہ مولانا عثمانی رحمۃ اللہ علیہ باور کروارہے ہیں۔جو راوی صاحب الروایہ ہو وہ کیا ثقہ وصدوق ہوتا ہے؟ بلکہ شیخ ابو غدہ رحمۃ اللہ علیہ نے اسی حوالے سے الرفع والتکمیل کے حواشی میں اس پر تفصیلاً بحث کرتے ہوئے اسے ضعف کے معنی میں متعین کیا ہے چنانچہ بحثکے نتیجہ میں فرماتے ہیں کہ ((فلفظۃ شیخ فی وصف الراوی، عنوان تلیین لاتمتین کما استفید من الأمثلۃ المذکورۃ)) [1] ’’لہٰذا راوی کے بارے میں شیخ کا لفظ، کمزوری کی علامت ہے متین کی نہیں جیسا کہ مذکورہ مثالوں سے معلوم ہوتا ہے۔‘‘ اس لیے محض’’شیخ‘‘ کے لفظ سے راوی کی تعدیل مراد لیکر راوی کو ’’مختلف فیہ‘‘ باورکروانا اس اصول کا کرشمہ ہے اور حقیقت سے بے خبری کی دلیل ہے۔ ثانیاً: مولانا صاحب نے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے محمد بن حجر کے بارے میں ’فیہ بعض النظر‘ نقل کیا ہے بلاشبہ میزان الاعتدال اور لسان المیزان میں یہ الفاظ اسی طرح ہیں۔بعض متأخرین نے بھی میزان سے یہی الفاظ نقل کیے ہیں۔مگر حقیقت یہ ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے متعلق ’فیہ نظر‘ کہا ہے۔[2] امام ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی یہی نقل کیا ہے۔[3] بلکہ علامہ زیلعی رحمۃ اللہ علیہ نے نصب الرایہ[4] میں بھی ’فیہ نظر‘ ہی نقل کیا ہے۔ ’فیہ نظر‘ اور ’ فیہ بعض النظر‘ میں جو فرق ہے اس سے اہلِ علم واقف ہیں۔ ثالثاً: علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے میزان کے علاوہ المغنی[5] اوردیوان الضعفاء[6] میں محمد بن حجر کا ذکر کیا اور کہا: روی مناکیر جس سے عیاں ہوتا ہے کہ علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک یہ راوی
Flag Counter