Maktaba Wahhabi

226 - 413
((من صلی مکتوبۃ أوسبحۃ فلیقرأبأم القرآن وقرآن معھا، فإن انتھی إلی أم القرآن أجزأت ، ومن کان معالإمام فلیقرأ قبلہ وإذا سکت، ومن صلی صلاۃ لم یقرأفیھا فھی خداج ثلاثاً)) [1] اس روایت میں نشان زدہ الفاظ بالکل وہی ہے، جنھیں دوبارہ حضرت صاحب نے نقل کرکے اس کی تضعیف بیان کرنے کی زحمت فرمائی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس میں ’ومن کان‘ کی بجائے ’إذا کنت‘ ہے۔ مصنف عبد الرزاق[2] میں بھی یہ مکمل روایت ہی ہے۔ صرف ’إذا کنت مع الامام‘ یا ’من کان مع الإمام‘ کے الفاظ سے علیحدہ مصنف میں نظر نہیں آئی۔ البتہ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب القراء ۃ میں پہلے امام عبد الرزاق رحمۃ اللہ علیہ کی سند سے یہ روایت مختصراً ’إذا کنت مع الإمام الخ‘ کے الفاظ سے ذکر کی ہے پھر صدقۃ عن المثنی عن عمرو سے، اس کے بعد عبد اللہ بن لہیعۃ عن عمرو کی سند سے مکمل روایت ذکر کی ہے۔ بلکہ علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی پہلے امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب القراء ۃ سے مختصر روایت ذکر کی ہے۔ پھر متصل بعد کتاب القراء ۃ سے مفصل روایت لائے ہیں اور ان دونوں کا صحیح ہونا نقل کیا ہے ۔[3] محدثین کے اصولِ تخریج کے مطابق سند کے مختلف ہونے سے یہ دو حدیثیں ہیں۔ لیکن ان دونوں کو مستقل طور پر علیحدہ علیحدہ ذکر کر کے اعتراض کرنا ایک فقیہ کے منصب سے فروتر ہے۔ اس بحث سے یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ کنز العمال کے مقدمہ کے حوالے سے تحسین و تصحیح کا جو اصول مولانا صاحب نے ذکر کیا ہے ،وہ کوئی حتمی نہیں اور یہ سہارا بھی عموماً حسبِ سابق اپنے مؤیدات کے تناظر میں ہے، ورنہ یہ قاعدہ مسلک کے برعکس روایات میں بھی تسلیم کیاجاتا اور علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ کے صریح حکم کونظر انداز نہ کیا جاتا۔
Flag Counter