Maktaba Wahhabi

189 - 413
کا معارضہ ہی درست نہیں۔ حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ہی ذکر کیا ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ’السلام علی النبی‘ پڑھنے لگے تھے بلکہ یہ روایت ’قلنا‘ کہ ہم صحابہ ’السلام علی النبی‘ پڑھنے لگے تھے، کے الفاظ سے بھی مذکور ہے۔ جیسا کہ ہم پہلے ذکر کر آئے ہیں۔ اور مولانا عثمانی مرحوم نے بھی اسے نقل کیا ہے۔[1] اس لیے فتح الباری میں حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ کے کلام سے ان کے عمل کا معارضہ درست نہیں۔ البتہ مولانا موصوف نے اس سے پھر یہ مخلص اختیار کیا کہ یہ موقوف ہے جو مرفوع کے مخالف ہے۔ ’ھذا الموقوف یخالف المرفوع‘ اور اس میں اجتہاد کو دخل ہے۔ [2] مگر یہ موقف تو ان کے اصول کے خلاف ہے کیونکہ جابجا انھوں نے فرمایا ہے کہ راوی اپنی روایت کے خلاف کرے تو یہ اس روایت پر جرح ہے ایسی صورت میں عمل صحابی کے عمل وفتوی پر ہو گا اس کی روایت پر نہیں۔ یہاں اس اصول کی مخالفت کیوں ہے؟ پھر یہ صحابی رضی اللہ عنہ کا اجتہاد نہیں،بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجتہاد ہے۔ اور عطاء بن ابی رباح سے تو بسند صحیح منقول ہے کہ انھوں نے فرمایا: ’ان الصحابۃ کانوا یقولون‘’’ کہ ایسا صحابہ کہتے تھے۔‘‘ [3] رہا اصحاب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا عمل تو اس سے حضرت عبد اللہ کے عمل سے معارضہ ہی درست نہیں۔ اسی طرح امام محمد رحمۃ اللہ علیہ نے موطا میں جو معلقاً حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ وہ تشہد میں ایک حرف کی کمی بیشی مکروہ سمجھتے تھے تو اس کی کوئی اصل نہیں۔ بلکہ صحیح سند سے اس کے خلاف ان کا عمل ثابت ہے جیسا کہ ہم پہلے ’’ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کا استدلال ‘‘ کے عنوان کے تحت ذکر کر آئے ہیں۔ مولانا صاحب نے یہاں حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے یہ اثر بھی نقل کیا ہے کہ ابو عبیدۃ رضی اللہ عنہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں تشہد کی تعلیم دیتے تھے اور تشہد کا ذکر کیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ تھے تو ہم
Flag Counter