Maktaba Wahhabi

187 - 413
استدلال نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی تفصیلی سند نہ معلوم کر لی جائے۔‘‘ غور کیجئے کہ علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ کی اس وضاحت کے بعد ’’کہ اس کے راوی الصحیح کے ہیں۔‘‘ حضرت موصوف اس پر اعتماد نہیں کرتے بلکہ فرماتے ہیں: الصحیح کے راویوں میں سے تو وہ بھی ہیں جو متکلم فیہ متابعات کے راوی ہیں اس لیے جب تک سند معلوم نہ ہو اس سے استدلال درست نہیں۔ حالانکہ حضرت نے خودفرمایا ہے کہ الصحیح میں متابعات کے راوی صدوق اور حسن درجہ سے کم نہیں ہیں۔[1] مگریہاں نہ علامہ ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ کی بات معتبر، نہ ہی اپنے ذکر کیے ہوئے اصول پر اطمینان۔ مزید عرض ہے کہ طبرانی کبیر میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ روایت موجود ہے اور اس کی سند بھی دیکھی جا سکتی ہے۔ چنانچہ اس کی سند حسب ذیل ہے۔ ((حدثنا علی بن عبد العزیز ثنا ابو نعیم ثنا عیسی بن عبد الرحمن السلمی قال سمعت مالکاً سأل الشعبی عن التشھد))الخ[2] اب اس کی سند میں امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ سے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سوال کرتے اور عیسی بن عبد الرحمن السلمی اس کی روایت وحکایت کرتے ہیں اور وہ ’’الصحیح‘‘ کے راوی نہیں بلکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے الادب المفرد میں روایت لی ہے۔ البتہ ثقہ ہیں[3] ابن معین ،ابو حاتم، ابو داود، العجلی اور ابن حبان رحمۃ اللہ علیہم نے اسے ثقہ کہا ہے۔ عیسی سے روایت ابو نعیم فضل بن دکین کرتے ہیں اور وہ ثقہ اور الصحیح کے راوی ہیں۔ ان سے روایت امام طبرانی رحمۃ اللہ علیہ کے مشہور استاد علی بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ نے کی ہے۔ الصحیح کے وہ بھی راوی نہیں،مگر ثقہ ہیں ۔حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے ’أحد الحفاظ المکثرین[4] نیز دیکھئے،تذکرۃ الحفاظ[5] اس لیے اس کے تمام راوی اگرچہ الصحیح کے نہیں لیکن سبھی ثقہ ہیں۔ مولانا صاحب کا یہ موقف تو درست ہے کہ اس
Flag Counter