Maktaba Wahhabi

120 - 413
سے مروی ہوں تو کیا وہ متروک نہیں رہتا ؟ علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے تو یہ بھی ذکر کیا ہے کہ اس کے سامنے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت، جو بخاری ومسلم میں ہے اور اثبات تقدیر کی بڑی دلیل ہے ،بیان کی گئی تو اس نے کہا: اگر میں حدیث اعمش سے سنتا تو میں کہتا تو جھوٹ بولتا ہے، اور اگر میں زید بن وھب سے سنتا تو میں اسے سچا نہ سمجھتا، اگر عبد اللہ بن مسعود سے سنتا تو میں قبول نہ کرتا، اگر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنتا تو اسے رد کر دیتا، اور اگر میں اسے اللہ تعالیٰ سے سنتا تو میں کہتا اے اللہ !آپ نے ہم سے اس پر میثاق نہیں لیا تھا۔ یہ اور اس نوعیت کے اس کے بہت سے ہذیان علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ نے نقل کیے ہیں۔[1] بتلائیے ایسا عقیدہ اور فکر رکھنے والے اور اس کی روایت کے بارے میں کیا حکم ہے؟ اس لیے علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کے اس جملہ سے اس کی توثیق وتحسین قطعاً ثابت نہیں ہوتی۔ المغنی اور دیوان الضعفاء میں ان کا فیصلہ بھی یہی ہے کہ متروک اور جھوٹا ہے۔ علاوہ ازیں امام ابن عدی رحمۃ اللہ علیہ جنھوں نے یہ روایات ذکر کی ہیں ان کی رائے بھی دیکھ لیجئے وہ اس کا تفصیلی ترجمہ لکھنے کے بعد کہتے ہیں: ((عمرو بن عبید قد کفانا السلف مؤنتہ حیث بینوا ضعفہ فی روایتہ وبینوا بدعتہ وکان یغرالناس بنسکہ۔۔۔وللسلف فیمن ینسب إلی الصلاح کلام کثیر حتی قال یحیی القطان ما رأیت قوماً أصرح بالکذب من قوم ینسبون إلی الخیر بنسکہ وتقشفہ وھو مذموم ضعیف الحدیث جداً معلن بالبدعۃ، وقد کفانا ما قال فیہ الناس)) [2] ’’عمروبن عبید کے بارے میں سلف نے ہمیں بے نیاز کر دیا ہے جبکہ انھوں نے روایت کا ضعف اور اس کی بدعت کو بیان کیا ہے وہ لوگوں کو اپنی نیکی میں دھوکا دیتا
Flag Counter