کسی ایک عورت کی اتفاقاً نظر پڑ گئی تو اس نے قبیلہ والوں کو اس کی اطلاع دے دی اور قبیلہ والوں نے اس کا سدباب کر دیا لیکن موصوف اپنی فطرت سے مجبور ہو کر کہتا ہے: ’’عورتیں نماز میں امام کی شرمگاہ دیکھتی رہیں۔‘‘ موصوف نے ایسے الفاظ استعمال کئے جس سے یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ عمل ہمیشہ رہتا ہے اور اس طرح اس نے اپنے خبث باط کا اظہار کیا ہے۔ جناب سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنے تہہ بندوں میں گردن پر گرہ لگا کر نماز پڑھا کرتے تھے کیونکہ تہہ بند چھوٹے تھے اور عورتوں سے کہہ دیا گیا تھا کہ تم اپنا سر (سجدے) سے اس وقت تک نہ اُٹھاؤ جب تک مرد سیدھے ہو کر بیٹھ نہ جائیں۔ (صحیح بخاری کتاب الصلوۃ۔باب اذان الثوب ضیقا ۳۶۲، ۸۱۴، ۱۲۱۵)۔ اس حدیث سے واضح ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک میں غربت کی وجہ سے لوگوں کے پاس کپڑوں کی شدید کمی تھی۔ کیا موصوف اس حدیث کا مطلب یہ لیں گے کہ عورتیں نماز میں مردوں کی شرمگاہیں دیکھتی رہتی تھیں؟۔ اگر یہ حدیث موصوف کے علم میں ہوتی تو یقینا وہ اس سے بھی یہی مطلب اخذ کرتے کیونکہ خبیث انسان ہمیشہ خباثت کے متعلق ہی سوچتا رہتا ہے۔…… الخبیثون للخبیثات …… نیز موصوف نے صحیح بخاری پر چھپے الفاظ میں زبردست طنز بھی کی ہے کہ صحیح بخاری جیسی کتاب بھی فحش باتوں سے خالی نہیں ہے۔ اور اس کی مزید وضاحت آگے آرہی ہے۔ پھر موصوف سول ۱۹۴ پر لکھتا ہے: ’’نمازی کی نظر اپنی شرمگاہ پر پڑ گئی تو نماز ٹوٹ جائے گی یا نہیں؟ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ موصوف ’’شرمگاہ دیکھنے کا کس قدر شوقین اور دلدادہ ہے اور یہ چیز موصوف کو اپنے اکابرین سے ورثہ میں ملی ہے۔ مولانا رشید احمد گنگوہی کا ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیے: |