Maktaba Wahhabi

114 - 169
پر بیان کیا ہے۔چونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مشرکین عرب کی طرف خاص طور پر ہوئی تھی اِس لیے اُن کے معاملے میں یہود و نصاریٰ اور دوسرے کفارکی نسبت زیادہ سختی کی گئی ہے اور اُن کے لیے جزیہ کی صورت بھی باقی نہیں رکھی گئی ۔ پس مشرکین عرب کے لیے دو ہی صورتیں تھیں: یا تو اسلام قبول کر لیں یا پھر قتال کے لیے تیار ہو جائیں ،یا تیسری ممکنہ(implied)صورت یہ تھی کہ حجاز کاعلاقہ چھوڑ کرکہیں اور منتقل ہوجائیں۔ یہ واضح رہے کہ قتال کی اِس علت اور غایت کی بنیاد پر قتال اس وقت ہوگا جبکہ کوئی مسلمان ریاست یااجتماعیت اُن اسباب و ذرائع اور استعداد و صلاحیت کی حامل ہو کہ جو اس کے لیے اَز بس ضروری ہیں ۔جب تک کفار سے جنگ کی استعداد و صلاحیت موجود نہیں ہے اُس وقت تک اسلام کے پھیلانے کا منہج دعوت و تبلیغ ہے نہ کہ جہاد وقتال۔ اور کفار کے ظلم کا جواب صبرہے نہ کہ جنگ وجدال جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکی منہج سے واضح ہوتا ہے۔ پس کسی بھی معاشرے میں اسلام کے نفوذ کے لیے مسلمانوں کو حالات کے اعتبار سے بنیادی طور پر دو منہج دیے گئے ہیں: 1۔ دعوت و تبلیغ اور صبر ومصابرت 2۔!جہاد و قتال اور ظلم وستم کا خاتمہ ونظام عدل کا قیام دونوں مناہج کے مطابق اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف حالات میں کام کیا ہے اور اب بھی جیسے حالات ہوں گے ویسا ہی منہج اختیار کیاجائے گا۔امام زرکشی رحمہ اللہ نے ’’البرھان‘‘میں ناسخ و منسوخ کی بحث کے تحت اِس موضوع پر عمد ہ کلا م کیا ہے اور لکھا ہے کہ اسلام کے یہ دونوں مناہج تاحال برقرار ہیں اور حالات کے تحت کسی بھی منہج کو اختیارکیاجا سکتا ہے۔ (البرھان فی علوم القرآن: ۲؍۴۳۔۴۴) ٭٭٭
Flag Counter