Maktaba Wahhabi

105 - 169
کا دعویٰ ہے کہ اِن حملوں میں اسرائیلی اور امریکی ریاستیں ملوث تھیں اور القاعدہ جیسی جماعت سے اِن حملوں کا تصور بھی ایک ناممکن امر ہے۔تفصیل کے لیے عابد اللہ جان صاحب کی کتاب (The Genesis of the Final Crusade) کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ پھر یہ حملے بالفرض اگرالقاعدہ نے کیے بھی تھے اوراُن کے مجاہدین افغانستان میں روپوش تھے تو عراق پر امریکی حملے کا کیا جواز تھا؟ یا افغانستان اور عراق میں اُن لاکھوں شہریوں (civilians)، عورتوں اور بچوں کا کیا قصور تھا جو امریکی بمباری کی وجہ سے شہید ہو گئے یا معذور ہو گئے یا زخمی ہوئے یا بے گھر ہو گئے؟ جبکہ خان صاحب اِس امریکی ظلم کو خدائی فیصلہ قرار دیتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں: ’’ ۱۱ نومبر ۲۰۰۱ء میں نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کو توڑنے کا مشہور واقعہ پیش آیا۔ اِس واقعے کے بعد امریکا غضب ناک ہو گیا۔ اُس نے عراق اور افغانستان کے خلاف براہ راست طور پر اور پوری دنیا کے خلاف بالواسطہ طور پر ایک انتقامی جنگ چھیڑ دی۔ اِس جنگ میں نام نہاد جہاد کے اکابر رہنما یا تو مارے گئے یا وہ خاموش ہو گئے۔ امریکا کا یہ آپریشن اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک خدائی آپریشن تھا۔ اس نے ان تمام طاقتوں کو زیر کر دیا جو اَمن اور دعوت کے مشن کے خلاف محاذ بنائے ہوئے تھے۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ:جولائی ۲۰۱۰ء، ص۲۶) سوال یہ ہے کہ خان صاحب جس مسیحی نفسیات یا تعلیمات کی دن رات مسلمانوں کو تلقین کرتے ہیں کہ اِنہیں اپنائیں یعنی دشمن سے محبت کریں، یک طرفہ اخلاقیات اختیار کریں، برائی کا جواب اچھائی سے دیں وغیرہ ، کیا مسیحی دنیا یا یورپ اور امریکہ کو اِن تعلیمات کی ضرورت نہیں ہے؟ ایک طرف تو خان صاحب یہ دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ مسیحی دنیا کی نفسیات ’’دشمن سے محبت کرو‘‘(Love your enemy)ہے اور دوسری طرف اُنہیں امریکہ کی وحشیانہ کاروائیوں کو مذہبی جواز تلاش کر دینے کی فکر پڑی ہوئی ہے۔ امریکہ اگر مسیحی تعلیمات کو ترک کر تے ہوئے مسلم دنیا کو راکھ کا ڈھیر بنا دے تو خدائی مشن پورا ہو رہا ہے اور اگر مسلمان اس ظلم کے جواب میں ظالم کو کوئی تھپڑ رسید کر دیں یا ایسا کرنے کی کوئی بات کریں تو وہ’مسٹر ٹررسٹ‘ بن جاتے ہیں۔ مسلمانوں سے
Flag Counter