کیوں نہیں آتا؟ ہم یہی کہیں گے کہ انقلابی فکر کے ردِّ عمل اور مسلمانوں کی تحریکی جدوجہد سے ضد کے سبب سے خود اہل اسلام ہی سے بغض ونفرت کے حوالہ سے اُن کے ذہن کی جو کنڈیشننگ ہو چکی ہے، اُس کی ڈی کنڈیشننگ اب ایک ناممکن اَمر معلوم ہوتی ہے۔ ایک جگہ خان صاحب لکھتے ہیں: ’’ یہ ایک عام تجربہ ہے کہ جب کوئی شخص رد عمل کی نفسیات کے تحت سوچے تو ہمیشہ اُس کی سوچ انتہا پسندانہ سوچ بن جاتی ہے۔ ایسا انسان کبھی معتدل انداز میں نہیں سوچ سکتا…اِس معاملے کی مثالیں مذہب اور غیر مذہب دونوں دائروں میں کثرت سے پائی جاتی ہیں۔ یہ معاملہ اتنا زیادہ عام ہے کہ شاید اِس میں کوئی استثناء نہیں۔‘‘(ماہنامہ الرسالہ: اکتوبر ۲۰۰۹ء، ص ۱۷) خان صاحب نے بالکل سچ کہا ہے ،کہ اِس معاملہ میں اُن کا بھی استثنا نہیں ہے اور ردِ عمل کی نفسیات میں وہ جہاں پہنچ چکے ہیں، اُن کے لیے راہ اعتدال کی طرف واپس آنے کا کوئی رستہ نظر نہیں آتا سوائے اِس کے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی معجزہ ہو جائے۔ خان صاحب لکھتے ہیں: ’’ قبول ِحق کی ایک رکاوٹ یہ ہوتی ہے کہ آدمی اپنے ذہن کا ایک خاص سانچہ بنا لیتا ہے۔ دھیرے دھیرے یہ سانچہ اتنا پختہ ہو جاتا ہے کہ اُس میں کسی تبدیلی کا امکان نہیں رہتا۔ اُس کے لیے صرف ایسی چیز قابل قبول رہ جاتی ہے جو اُس کے ذہنی سانچہ کو باقی رکھتے ہوئے اِس کے اندر جگہ حاصل کر کے مطمئن ہو جائے۔ کوئی ایسا تصور جو اُس کے ذہنی سانچہ کو توڑ کر اپنی جگہ بنانا چاہتا ہو، وہ اُسے قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتا، بلکہ وہ اُس پر غور کرنے کی ضرورت بھی نہیں سمجھتا۔‘‘(تعبیر کی غلطی: ص ۳۴۰) خان صاحب کا معاملہ بھی بالکل ایسا ہی ہو گیا ہے جیسا کہ وہ بیان کر رہے ہیں۔ اُنہوں نے غور نہیں کیا، وہ لاشعوری طوراِس عبارت میں اپنے ذہن کا ہی تجزیہ پیش کر رہے ہیں۔ سوال تو یہ ہے کہ کیا یہ قطعی طور ثابت ہے کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے القاعدہ نے کروائے تھے؟ جبکہ امریکہ کے ٹاپ کلاس کے صحافیوں اور تجزیہ نگاروں کی ایک جماعت |