یہی حال تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ہے۔ انہیں صحبت کا شرف حاصل ہوا؛ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے اور آپ کے ساتھ مل کر جہاد کیا ۔یہ ایسا ایمان و یقین تھا کہ بعد میں آنے والے اس میں ان کے شریک و سہیم نہیں ہوسکتے۔صحیح مسلم میں یہ ثابت ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھا یا۔آپ اکثر آسمان کی طرف سر مبارک اٹھایا کرتے تھے؛ اور فرمایا:
’’ستارے آسمان کے لیے باعث امن ہیں جب ستارے رخصت ہو جائیں گے تو آسمان سے جس چیز کا وعدہ کیا گیا ہے وہ پورا کر دیا جائے گا۔ا سی طرح میری ذات صحابہ کے لیے باعث امن وسکون ہے جب میں نہیں ہوں گا تو صحابہ موعود مصائب سے دوچار ہوجائیں گے۔ میرے صحابہ میری امت کے لیے باعث امن ہے جب میرے صحابہ رخصت ہو جائیں گے تو امن و امان اٹھ جائے گا۔‘‘[1]
احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ ایک جماعت مصروف جنگ ہوگی۔ ان سے دریافت کیا جائے گا، کیا تم میں کوئی صحابی ہے؟ وہ کہیں گے ’’ہاں ‘‘ چنانچہ انھیں فتح نصیب ہو گی۔ پھر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ لوگوں کی ایک جماعت جنگ کر رہی ہو گی۔ اس سے پوچھا جائے گا کیا تم میں کوئی ایسا شخص موجود ہے جس نے کسی صحابی کودیکھا ہو؟ کہیں گے:’’ ہاں ‘‘ چنانچہ ان کو فتح حاصل ہو گی۔ پھر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ ایک جماعت مصروف پیکار ہو گی۔ اس سے پوچھا جائے گا کیا تم میں سے کسی نے کسی تابعی کو دیکھا ہے؟ کہیں گے:’’ہاں ‘‘ چنانچہ وہ فتح و نصرت سے ہم کنار ہوں گے۔[2]
حدیث ہذا کے تمام طرق میں تینوں طبقات (صحابہ تابعین، تبع تابعین) کا ذکر کیا گیا ہے۔ چوتھے طبقے کا ذکر بعض روایات میں ملتا ہے۔[3] متعدد روایات صحیحہ میں آیا ہے کہ آپ نے قرون ثلاثہ کی مدح و ستائش فرمائی۔[4]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعدد احادیث مبارکہ میں قرون ثلاثہ کے لوگوں کی مدح سرائی اور ثنا و تعریف ثابت ہے۔
|