’’اورجو شخص رحمن کی نصیحت سے اندھا بن جائے ہم اس کے لیے ایک شیطان مقرر کردیتے ہیں ، پھر وہ اس کے ساتھ رہنے والا ہوتا ہے۔‘‘
ذکر سے مراد نازل کردہ ذکر اور ’’یعش‘‘ سے مراد قرآن کی طرف عدمِ التفات اور رب تعالیٰ کے عقاب سے بے خوفی ہے۔ اسی معنی میں یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ ہٰذَا ذِکْرٌ مُّبٰرَکٌ اَنْزَلْنٰہُ﴾ (الانبیاء: ۵۰)
’’اور یہ ایک با برکت نصیحت ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿مَا یَاْتِیْہِمْ مِّنْ ذِکْرٍ مِّنْ رَّبِّہِمْ مُّحْدَثٍ﴾ (الانبیاء: ۲)
’’ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے کوئی نصیحت نہیں آتی جو نئی ہو۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ مَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِکْرِیْ﴾ (طٰہٰ: ۱۲۴)
’’اور جس نے میری نصیحت سے منہ پھیرا۔‘‘
پھر یہ ارشاد فرمایا:
﴿کَذٰلِکَ اَتَتْکَ اٰیٰتُنَا فَنَسِیْتَہَا وَ کَذٰلِکَ الْیَوْمَ تُنْسٰےo﴾ (طٰہٰ: ۱۲۶)
’’اسی طرح تیرے پاس ہماری آیات آئیں تو تو انھیں بھول گیا اور اسی طرح آج تو بھلایا جائے گا۔‘‘
غرض جوبھی قرآن سے بے التفاتی کرے گا رب تعالیٰ اس پر شیطان کو مسلط فرما دے گا۔ چاہے وہ جتنی بھی عبادت کرے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما ’’یعش‘‘ کی تفسیر ’’یعمی‘‘ (اندھا ہونا) مروی ہے۔ عطا اور زید بن اسلم کا بھی یہی قول ہے۔ ابو عبیدہ کہتے ہیں : یعنی ’’اس کی آنکھوں تاریک ہو جائیں ۔‘‘ یہ ابن قتیبہ کا مختار قول ہے اور انھوں نے اس قول کو ’’اعراض‘‘ کے ساتھ تفسیر کرنے پر راجح قرار دیا ہے۔ عَشَا یہ نگاہ کی کمزوری کو کہتے ہیں ۔ اسی لیے یہاں یَعْشُ کہا گیا ہے۔ ضحاک کی ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی روایت میں اس سے ’’اعراض‘‘ مراد ہے۔ یہ قتادہ کا قول ہے۔ فراء اور زجاج نے اسی کو اختیار کیا ہے۔[1]
معنی کے اعتبار سے یہ تفسیر صحیح ہے۔ کیونکہ ’’یَعْشُ‘‘ یہ اعراض کے معنی کو متضمن ہے۔ اسی لیے اسے ’’عَنْ‘‘ حرفِ جر کے ساتھ متعدی لایا گیا ہے۔ جیسا کہ اعراض کرنے پر اور کسی کی خوبیوں کی نگاہ نہ کرنے پر کہا جاتا ہے ’’اَنْتَ اَعْمٰی عَنْ مَحَاسِنِ فُلَانٍ‘‘ (تو فلاں کی خوبیوں سے اندھا ہے)۔ لہٰذا یعش سے مراد اعشی عنہا ہے اور یہ اندھا ہونے سے کم درجہ کا ہوتا ہے۔ یعنی کمزور نگاہ سے دیکھنا یہ ان گمراہوں کا حال ہے جو قرآن سے منتفع نہیں ہوتے، کہ یہ لوگ
|